استاد بڑے غلام علی خاں پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے سستی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے کلاسیکل راگوں کو زک پہنچائی ۔ ہم نے بھی سیاست کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک روا رکھا ہے ۔ ہماری سیاسی تاریخ میں کھرے پن اور استقلال کا دوسرا نام حسرت موہانی ہے ۔ انہوں نے چکی کی مشقت میں بھی مشق سخن جاری رکھی ۔ آزادی کی جدو جہد میں تین مرتبہ بہت مشکل قید کاٹی ۔ آج کل ادھر لوگ یونہی پولیس کی حراست میں کیمرہ دیکھتے ہی وی کا نشان بناتے ہیں۔ اگر یہ مولانا حسرت موہانی کی طرح چند روز قید کاٹنے کی سکت پیدا کر سکیں تو ہمارے سارے قومی مسائل حل ہو جائیں۔ مسلم لیگ نے نواب آف ڈھاکہ کے ہاں جنم لیا تھا۔ اس کا شروع سے ہی مزاج نوابوں اور جاگیرداروں کی جماعت کا رہا ۔ حسرت موہانی جیسے درویش منش اس میں چند ایک تھے ۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی سارے جاگیردار یونینسٹ ادھر آگئے ۔ مسلم لیگی پلیٹ فارم سے حبیب جالب کی شاعری سنانے والے میاں شہبازشریف ان دنوں کرپشن کے الزامات پر جیل میں ہیں۔ وہ شکایت کر رہے ہیں کہ میرا کھانا فرش پر رکھ دیا جاتا ہے ۔ ریڑھ کی ہڈ ی کی تکلیف کے باعث مجھے اسے اٹھانے میں بڑی تکلیف اٹھانا پڑتی ہے ۔ مسلم لیگی لیڈر شپ آسودگی کا دوسرا نام ہے ۔یہ سیاست میں رنج اٹھانے کیلئے نہیں آتے ، سیاست ان کے ہاں قومی مسائل نہیںصرف ذاتی آسائش اور اہمیت کا معاملہ ہے۔ پاکستان کے بعد حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نے ختم نبوت کا مورچہ سنبھال لیا تھا۔ ایک مرتبہ وہ تقریر کرنے گکھڑ منڈی پہنچے ۔ رات اس درویش نے مولانا سرفراز صفدر کی مسجد میں بسر کی۔ ناشتے کا اہتمام میر بشیر کے ہاں تھا۔ ان کا گھر دیکھ کر بولے ۔ کسی مسلم لیگی کا گھر لگتا ہے ۔ احراریوں کے گھر نہیں جھونپڑے ہوا کرتے تھے ۔ بیشک میر بشیر مسلم لیگی رہنما ہی تھے ۔ امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ مسلم لیگی مزاج سے نہیں نکل سکی ۔ تحریک انصاف نے بھی تبدیلی کے نام پر تین چیزیں متعارف کروائی ہیں۔ دیسی مرغی ، منرل واٹر کی بوتل اور ایک بڑی سی گاڑی جس کی چھت سے کھڑے ہو کر دو انگلیوں سے وی کا نشان بنایا جا سکے ۔خاصی اچھی کارکردگی یوسف رضا گیلانی کی رہی ۔ان کی سیاسی زندگی کے دو باب ہیں، وزیر اعظم بننے سے پہلے اور وزیر اعظم بننے کے بعد۔ پہلے باب میں اپنی والدہ کے مخدودم الملک کی وراثت سے ملے مربعے بیچ کھانے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے ۔ بطور سپیکر قومی اسمبلی ان کی کار کردگی بہت باوقار رہی ۔ انہوں نے لکھا ۔ میرے ایک دوست نے قومی اسمبلی اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر لغاری کے خطاب کی کاروائی دیکھنے کیلئے میر مرتضیٰ بھٹو کیلئے پاس مانگا۔ میں نے جاری کر دیا۔ جب وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو چیئرمین سینٹ اور میں صدر لغاری کا استقبال کرنے قومی اسمبلی کے صدر دروازے کی طرف جار ہے تھے تو اچانک مرتضیٰ بھٹو ہمارے سامنے آگئے ۔ وزیر اعظم نے اپنی عینک لگا کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے کہا۔ یوسف کیا یہ میر مرتضیٰ ہیں؟ میں نے کہا جی ہاں۔ انہوں نے دریافت کیا کہ انہیں کس نے بلایا ؟ میں نے کہا انہیں میں نے بلایا۔ دونوں بہن بھائیوں میں ناچاقی کے باعث بول چال بند تھی ۔ اس دوران وہ محترمہ کو دیکھتے ہی اسمبلی ہال کے اندر داخل ہو گئے ۔ جب ہم لفٹ میں سوار ہوئے تو وزیر اعظم نے کہا۔’’آج میرے بھائی نے میرے سپیکر کو تسلیم کرلیا ہے ، جلد ہی وہ مجھے بھی تسلیم کر لیں گے‘‘۔پھر اپوزیشن اراکین کے پروڈکشن آڈر ہماری سیاسی جماعتوں کی ’’شاہی‘‘ میں آسان نہ تھا۔ آج ہماری سیاسی جماعتوں کا منشور محض اپنے اپنے سیاسی قائدین کے مالی وسائل اور اپنی اپنی سیاسی حیثیت بچانے کے سوا کچھ نہیں۔اس کے لئے ایک جماعتی قائد کی چاکری میں آخر حرج ہی کیا ہے ؟ جنہیں چومنے کیلئے اپنے قائد کے پائوں میسر نہیں آتے ، وہ ان کی گاڑی کے ٹائر چوم کر فرض چاکری ادا کر لیتے ہیں۔ نوکری اور چاکری میں فرق لغت سے دیکھ لیں ، بہت فرق ہوتا ہے ۔ لیکن اس سروری کے کچھ اپنے مزے بھی ہیں۔ رہی خودی ، ان حالات میں اس کی موت چہ معنی دارد۔ باوضو سیاست کرنے والے پریشان ہیں۔ ؎
رندوں کی جوتیاں بھی چرا لے گیا کوئی
ظالم نے میکدے کو بھی مسجد بنا دیا
اب کسی کو فکر نہیں کہ خلق خدا کس حال میں ہے ؟وافرگندم پیدا کرنے والے پاکستان میں آٹا 80روپے کلو بکنے لگاہے ۔مہنگی سبزیوں کو چھوڑیں، اس بکر عید پر کراچی کے بازاروں میں قربانی کا گوشت بکتا رہا۔ غریبوں نے اپنے حصے کا گوشت بیچنے کیلئے بازار لا ڈھیر کیا۔ یہ گوشت اب غریبوں کے کام کا نہیں رہا تھا۔ گوشت پکانے کے لئے بہت کچھ چاہئے ،گھی، پیاز، لون ، مرچ ، مصالحہ۔ ہزاروں برس ہوئے انسانوں نے کچا گوشت کھانا چھوڑ دیا ہے۔16اکتوبر کو ن لیگی شہر گوجرانوالہ میں مریم بی بی کا جلسہ ہے ۔ اللہ مریم بی بی کے حسن و صحت میں اضافہ فرمائے ۔ علم کی دعا نہیں مانگ رہا۔ علم اب سیاست میں کوئی خوبی نہیں رہی ۔ کالم نگار کے چچا ن لیگی ممبر قومی اسمبلی بیرسٹر عثمان ابراہیم پوچھنے لگے ۔ ہمارا 16اکتوبر والا جلسہ کیسا رہے گا؟ کالم نگار نے عرض کی ۔ ن لیگی کارکن کوڑے ،حوالات ، جیل والے کارکن نہیں ۔ یہ سیاست ، عزت ، اختیار اور خوشحالی کیلئے کرتے ہیں۔ دوم۔ سرکار کیلئے بہت آسان ہے کہ کرونا کی دوسری لہر میں ایس او پیز کی خلاف ورزی پر کچھ میرج ہال سیل کر دے۔چند اسکول بند کر دے ۔ شہر میں جگہ جگہ ناکے لگا کر ماسک کی پابندی نہ کرنے والوں کو گرفتا ر کر لے ۔ یا موقعہ پر جرمانہ کی سزا سنائے ۔ اسطرح آپ کا جلسہ منظر نامے سے سرک جائے گا۔لیکن سرکار نے کیا کیا ہے ؟ ڈھیروں پولیس اور انتظامی افسروں کے تبادلے اور اسی دن ’حب پاکستان ‘ کے نام سے ایک ریلی کا اہتمام ۔ اس ریلی کے منتظم اعلیٰ چوہدری محمدیونس انصاری نے ریلی کے متوقع ساٹھ ہزار شرکاء کیلئے بریانی کا بندوبست کرلیا ہے ۔ ہم نے 73برسوں میں کچھ نہیں سیکھا۔ نہ سیاست ، نہ عدالت اور نہ ہی حکومت ۔ ابھی۔۔۔۔کوزے کو چاک ،رنگ کو تصویر چاہئے جناب۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38