پیر ‘ 24 ؍ صفرالمظفر 1442ھ‘ 12؍اکتوبر 2020ء
نیب کا چھاپہ ۔ کروڑوں کی جائیدادیں بنانے والا ڈی سی آفس بہاولنگر کا چوکیدار گرفتا ر بھائی فرار
اس شکل مومنانہ کرتوت کافراں والے چوکیدار نے صرف 30 سے زیادہ جائیدادیں ہی نہیں بنائیں ، موصوف کے غریب خانے سے 6 کلو سونا دو بوریاں نوٹ اور ایک بوری پرائز بانڈز سے بھری بھی برآمد ہوئی ہے۔ یہ مال کسی شاہی خزانے سے کیا کم ہو گا۔ کون کہتا ہے پاکستان میں غربت ہے۔ جس ملک میں ایک چپڑاسی یا چوکیدار بھی اربوں روپے کا مالک ہو وہاں غربت صرف سفید پوش ایماندار لوگوں کے لئے ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوتے ۔ ساری زندگی روتے دھوتے رہتے ہیں۔ مگر ان کا دل مطمئن اور روح سرشار ہوتی ہے۔ اب اس گرفتار چوکیدار کی شکل دیکھیں کیسا باشرع مولوی نظر آتا ہے۔ لگتا ہے کہ موصوف ذکر و فکر اور پنج وقتی نماز کے علاوہ بڑی مسکین شریفانہ صورت بنا کر اپنے کالے کرتوت چھپاتا رہا ہے۔ اب نیب والوں کے رگڑے میں آنے کے بعد دیکھتے ہیں مزیدکیا اور نکلتا ہے۔ یہ کم بخت ڈی سی آفس میں چوکیدار تھا یا کسی ہیرے کی کان کا مالک۔ لیکن اب تو کوئلوں کی دلالی والا معاملہ ان کے ساتھ ہونے والا ہے جس میں منہ بہرحال کالا ہوتا ہی ہے۔ اب ذرا ان باقی شرفا کا بھی پتہ لگانا ضروری ہے جن کی سرپرستی میں یہ حضرت ان کا بھائی اور دیگر ساتھی جو بھاگ گئے ہیں، یہ سونے کی لنکا بنانے میں مصروف تھے۔
٭…٭…٭
جلسہ ہوکر رہے گا۔ روک سکو تو روک لو۔ مسلم لیگ (ن)
چلو جی اب ایک بار پھر ہماری سیاست میں ’’روک سکو تو روک لو‘‘ والی گردان دہرائی جانے لگی ہے۔ پہلے بھی اس گردان کی بدولت جو گرما گرمی نظر آئی تھی ، کوچہ سیاست میں جو رونق لگی تھی اس کا انجام سب کے سامنے ہے۔ کافی عرصہ بعد ایک بار پھر یہی نعرہ لگا کر مسلم لیگ (ن) اپنے کارکنوں اور رہنمائوں کو جو ستو پی کر خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے، جگانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ خدا جانے ان پر اثر ہو گا بھی یا نہیں ۔ لاہور میں شہباز شریف کی گرفتاری کیخلاف ہونے والا جلسہ کارنر میٹنگ لگ رہا تھا۔ گوجرانوالہ میں دیکھنا ہے اب مریم نواز جو پنڈال سجا رہی ہیں اس کا ماحول کیا ہو گا۔ اس وقت مریم نواز اور ان کے والد میاں نواز شریف مسلم لیگ (ن) کا سخت گیر موقف رکھنے والوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ کبھی یہ پیپلز پارٹی کا خاصہ ہوتا تھا۔ اس کے سینکڑوں کارکنوں نے اس موقف کی وجہ سے کوڑے کھائے۔ پھانسی پائی اور جیلوں کی سزائیں بھگتیں ۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس بدقسمتی کہہ لیں یا خوش قسمتی ایسے کارکن موجود نہیں جو یہ اذیتیں برداشت کرسکیں ۔ جس جماعت کے قائدین اور رہنما جیل کی صعوبتوں سے فرار ہونے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ گھروں میں نظر بندی یا ازخود گرفتاری دے کر سڑکوں پر نکل کر مار کھانے سے تشدد سہنے سے محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے کارکنوں سے سڑکوں پر نکل کر مقابلہ کرنا بھلا کہاں ممکن ہو گا۔ ویسے بھی روٹی کے چکر میں ڈال کر حکومت نے سب کے غباروں سے ہوا نکالی ہوئی ہے۔
٭…٭…٭
تہران میں ماسک نہ پہننے پر 5 لاکھ ریال جرمانہ ہو گا۔ صدر حسن روحانی
یہ ہوتی ہے سو سنار کی تے اک لوہار کی۔ جب کوئی بندہ بشر پیار سے بات نہ مانے تو پھر ایسا ہی تگڑاوار کرنا پڑتا ہے کہ چودہ طبق روشن ہو جائیں۔ نجانے کیوں لوگ کرونا کو آسان لے رہے ہیں۔ ایران ان ممالک میں شامل ہے جہاں کرونا نے کافی نقصان پہنچایااور ابھی تک وہ کرونا کی زد میں ہے۔ اس کی بڑی وجہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنا ہے۔ موسم سرما میں کرونا کی دوسری لہر کا خدشہ اس بات کا متقاضی ہے کہ عوام کو اب ڈنڈے اور سزا و جرمانے کے خوف سے راہ راست پر لایا جائے۔ حسن روحانی نے اب یہی راستہ اپنایا ہے ۔اب ہمارے ہاں بھی موسم سرما میں کرونا کی لہر سے اس کے کیسز میں اضافے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ہم لوگ بھی بے احتیاطی کے عادی ہو گئے ہیں۔ پہلے 60 فیصد لوگ ماسک پہنتے تھے۔ یوں بچت ہو گئی۔ اب 80 فیصد لوگ ماسک پہننے کے روادار نہیں۔ یوں حالت بگڑنے کا خدشہ ہے۔حکومت اگر ہمارے ہاں بھی ماسک نہ پہننے والے پر 5 لاکھ نہ سہی 5 ہزار روپے ہی سہی جرمانے کا اعلان کر دے تو کل سے پورا شہر مشرف بہ ماسک ہو جائے گا۔ ویسے آپس کی بات ہے اس وقت ایرانی کرنسی کی جو حالت ہے اس میں 5 لاکھ ریال ہمارے کمزور مدقوق روپے میں 5 ہزار کے ہی برابر ہیں۔
٭…٭…٭
عوام جیلیں بھرنے کو تیار ہیں‘ عمران خان دروازے کھول دیں‘ مریم اورنگزیب
یہ عمران خان صاحب کیا جیل کے دروغہ جی ہیں کہ ان سے کہا جا رہا ہے کہ جیل کھولیں۔ یہ کام کرنے والے اور ہیں۔ پھریہ کس نے کہہ دیا کہ عوام جیلیں بھرنے کو تیار ہیں۔ عوام میں تو پیٹ بھرنے کی سکت نہیں رہی وہ بھی ان سے چھن چکی ہے۔ اس حالت میں بھلاجیل بھرنے کو کون تیار ہو گا۔ اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ حالات سے تنگ آ کر لوگ اپوزیشن کی کال پر لبیک کہیں گے اور ہنسی خوشی جیل جانے کو تیار ہوں گے تو ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کیوں کہ ہمارے گردش دوراں کے مارے لوگ ’’دال روٹی کھاؤ پربھوکے گن گاؤ‘‘ کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان پر بغاوت کے یا انقلابی فلسفے کا اثر نہیں ہوتا۔ جو لوگ بھوکے مرتے ہوئے بھی کچھ نہ کریں وہ بھلا کسی فلسفے یا پارٹی کی خاطر جیل کیوں جائیں۔ اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے عوام کے دکھ درر کا خیال رکھا ہوتا ان کے مسائل حل کیئے ہوتے انہیں مراعات دی ہوتیں تو وہ بھی جان لڑانے کو تیار ہوتے مگر سب جانتے ہیں یہ ایلیٹ کلاس اشرافیہ طبقے کے حکمرانوں نے ووٹ لے کر بھی بھوکے ننگے اور مختلف مسائل کا شکار عوام کے لیے کچھ نہیںکیا۔ ان کی تجوریاں اور پیٹ بھرتے رہے۔ کروڑوں لوگ غریب سے غریب تر ہوتے گئے۔ جس ملک میں 60فی صد سے زیادہ لوگ خطہ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں۔ چند فی صد اشرافیہ ان پر حکومت کر رہی ہو ان کا خون نچوڑ رہی ہو تو یہ سسکتے بلکتے لوگ بھلا اشرافیہ کی کسی تحریک کا حصہ کیسے بنیں گے۔ ان کے لیے اپنی بچی کھچی سانسیں کس طرح قربان کریں گے۔ ہاں اگر حکمرانوں نے انہیں کچھ دیا ہوتا تو وہ ایسا ضرور ہنسی خوشی کرتے۔