مولانا فضل الرحمان کا دھرنا روکنے کی حکومتی تدبیریں
وزیراعظم عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنا روکنے کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کو ٹاسک دے دیا ہے۔ وزیراعظم نے دھرنے سے متعلق تمام معلومات بھی طلب کر لیںاور دھرنے کو روکنے یا اس سے نمٹنے کے حوالے سے سفارشات بھی تیار کرنے کی ہدایت کر دی۔ تاہم وزیر مذہبی امور نے اپنے لئے ایسے کسی ٹاسک کی تردید کی ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے 27 اکتوبر کو حکومت کے خلاف آزادی مارچ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ خیبر پی کے حکومت نے مارچ روکنے کا اعلان کیا ہے، اسی حوالے سے پارٹی ایم پی ایز کو ٹاسک دیا گیا ہے۔ مولانا کے دھرنے کے حوالے سے عزائم واضح ہیں۔ وہ حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں، مارچ اور دھرنا روکنے کے حوالے سے حکومتی ممکنہ اقدامات کے حوالے سے مولانا نے کہا ہے کہ اگر مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی تو احتجاج پورے ملک میں پھیلا دیا جائے گا۔ دھرنا طویل اور تحریک انصاف کی طرح 126 دنوں کا نہیں ہو گا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے مارچ اور دھرنے میں شرکت کا واضح اعلان نہیں کیا مگر وہ آخری مراحل میں مولانا کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔ کیپٹن صفدر نے میاں نوازشریف کی مارچ میں مسلم لیگ ن کے شامل ہونے کی حمایت سے میڈیا کو آگاہ کیا ہے، بلاول بھی بین السطور یہی عندیہ دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں حکومت نے مجبور کیا تو دھرنے میںشرکت کر سکتے ہیں۔ حکومت کے لئے مولانا فضل الرحمن کا دھرنا خیر کی خبر نہیں ہے۔ پرامن احتجاج کسی بھی شہری کا جمہوری حق ہے۔ مولانا یہی حق عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کا حوالہ دیکر حکومت کے خاتمے کے لئے احتجاج کے ذریعے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ دھرنا کامیاب ہو یا ناکام عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کریگا۔ حکومت دھرنا اور مارچ کے خلاف سخت اقدامات کے بجائے صورت حال کو مذاکرات کے ذریعے نارمل رکھنے کی کوشش کرے، مولانا سے رابطوں کا فیصلہ درست اور بروقت ہے۔ حکومت اپوزیشن کے احتجاج کے غبارے سے ہوا عوام کو مہنگائی کے حوالے سے مطمئن کر کے بھی نکال سکتی ہے۔ مولانا بھی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر سنجیدگی سے غور کریں۔