گورنر سٹیٹ بنک کی نئی منطق
گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر باقر رضانے بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)کے پاس جانے کی نئی منطق پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈالر کو مہنگا ہونے سے روکنا دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی وجہ بنا۔ انہوں نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کا غیر مستحکم ہونا بھی کمزور معیشت کی دلیل قرار دیا۔
یہ حقیقت ہے کہ سابقہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور ڈالر کو مہنگا ہونے سے روکنے کے باعث موجودہ حکومت کو مشکل فیصلے کرنا پڑے جن کے اثرات معیشت سمیت ملک کے غریب عوام پر بھی پڑے۔ معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے حکومت نے دوست ممالک سے رابطے کئے جنہوں نے مایوس نہیں کیا‘ اسکے علاوہ ملکی مالیاتی اداروں سے بھی قرضے لئے گئے لیکن اس سے معیشت کتنی مضبوط ہوئی یہ الگ بحث ہے مگر عوام کی زندگیاں مہنگائی کے باعث اجیرن بنی ہوئی ہیں۔ دو ہفتے قبل گورنر سٹیٹ بنک رواں سال میں مہنگائی کم ہونے کا امکان ظاہر کرچکے ہیں لیکن اب وہ باور کرا رہے ہیں کہ دو سال تک مہنگائی میں کمی ہوسکتی ہے۔ عوام انکے کس بیان پر یقین کریں۔ معیشت کی بدحالی کو جواز بنا کر آئے روز نئے ٹیکس اور مہنگائی میں اضافہ کرنا حکومت کا معمول بن چکا ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک کی یہ منطق بھی سمجھ سے بالا ہے کہ دوست ممالک نے ہاتھ کھینچا تو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا حالانکہ سعودی عرب ‘ چین اور دوسرے دوست عرب ممالک نے بیل آئوٹ پیکیجز کا صرف اعلان ہی نہیں کیا ‘اس پر فی الفور عملدرآمد کرکے پاکستان کو وہ پیکیج دیئے جن سے فوری طور پر پاکستان اپنا قرض اتارنے کے قابل ہوا تھا۔ اسکے بعد حکومت نے معیشت کے سنبھلنے کا اعلان کیا اور آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی حکومت نے اپنے ہی فیصلے سے رجوع کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دے ڈالی اور اسکی ناروا شرائط مانتے ہوئے قرض لے لیا جس کے نتیجہ میں مہنگائی کا ایک نیا سونامی درآیا۔ پچھلے دنوں مشیر خزانہ نے بھی معیشت کے مستحکم ہونے کی نوید سنائی تھی لیکن ابھی انکے یہ بول ہوا میں تحلیل بھی نہیں ہوئے تھے کہ انہوں نے مہنگائی میں اضافے کی خبر سنا کر عوام کو مایوس کر دیا۔ معیشت کی صورتحال بہتر ہونے کا تب ہی یقین کیا جا سکتا ہے جب عام آدمی کو ریلیف ملنا شروع ہو جائیگا۔ بہتر ہے حکومت مہنگائی کے محرکات پر نظر رکھتے ہوئے ایسی پالیسی مرتب کرے جس سے ڈالر کی قیمت میں بھی کمی واقع ہو اور مہنگائی پر بھی قابو پایا جاسکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ ڈالر مافیا پر ہاتھ ڈالا جائے۔ جب تک معیشت واقعی مستحکم نہیں ہوجاتی اور عوام کو اسکے ثمرات ملنا نہیں شروع ہو جاتے حکومتی اکابرین کو ایسے خوش کن اعلانات کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔