نماز کے روحانی اسرار
حضرت علی بن عثمان الہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش (۰۰۴ھ۔ ۵۶۴ھ) امت کے مشاہیر میں سے ہیں،آپ کا علمی اور روحانی مقام مسلّم ہے۔ آپ کی کتاب کشف المحجوب درجہ استناد رکھتی ہے۔ ذیل میں ہم نماز کے ظاہری وباطنی اسرار کے حوالے سے اس کے اقتسابات نقل کرتے ہیں۔
نماز کے معنی باعتبار لغت، ذکر و انقیاد کے ہیں اور فقہاء کے عرف و اصطلاح میں، مقررہ احکام کے تحت مخصوص عبادت ہے۔ جو بفرمانِ الٰہی نمازِ پنجگانہ ہے جنہیں پانچ وقتوں میں ادا کیا جاتا ہے۔ نماز کی فرضیت کے لئے اس کے وقت کا پہلے داخل ہونا شرط ہے۔ نماز کے شرائط میں سے ایک شرط طہارت ہے۔ جو ظاہری طور پر ناپاکی سے اور باطنی طور پر شہوت سے پاک ہونا ہے۔ دوسری شرط لباس کی پاکی ہے ظاہر طور پر نجاست سے اور باطن طور پر اس طرح کہ وہ حلال کمائی سے ہو۔ تیسری شرط جگہ کا پاک ہونا ہے ظاہر طور پر حوادث و آفت سے اور باطنی طور پر فساد و معصیت سے۔ چوتھی شرط استقبال قبلہ ہے ظاہر طور پر خانہ کعبہ کی سمت اور باطنی طور پر عرشِ معلی اور اس کا باطن مشاہدہ حق ہے۔ پانچویں شرط قیام ہے ظاہری طور پر کھڑے ہونے کی قدرت اور باطنی طور پر قربتِ الٰہی کے باغ میں قیام ہے۔ چھٹی شرط دخول وقت ہے جو ظاہری طور پر شرعی احکام کے مطابق اور باطنی طور پر حقیقت کے درجہ میں ہمیشہ قائم رہنا ہے۔ اور داخلی شرائط میں سے ایک شرط خلوص نیت کے ساتھ بارگاہِ حق کی طرف متوجہ ہونا ہے اور قیام ہیبت و فنا میں تکبیر کہنا، محل وصل میں کھڑا ہونا، ترتیل و عظمت کے ساتھ قرأت کرنا، خشوع کے ساتھ رکوع کرنا، تذلل و عاجزی کے ساتھ سجدے کرنا، دلجمعی کے ساتھ تشہید پڑھنا، اور فنائے صفت کے ساتھ سلام پھیرنا۔
ایک بزرگ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حاتم اصم سے میں نے پوچھا آپ نماز کس طرح ادا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ جب اس کا وقت آتا ہے تو ایک ظاہری وضو کرتا ہوں دوسرا باطنی وضو۔ ظاہری وضو پانی سے اور باطنی وضو توبہ سے۔ پھر جب مسجد میں داخل ہوتا ہوں تو مسجد حرام کے روبرو دونوں ابرو کے درمیاں مقام ابراہیم دیکھتا ہوں۔ اور اپنی داہنی جانب جنت کو اور بائیں جانب دوزخ کو دیکھتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ میرے قدم پل صراط پر ہیں اور ملک الموت میرے پیچھے کھڑا ہے۔ اس حال میں کمالِ عظمت کے ساتھ تکبیر، حرمت کے ساتھ قیام، ہیبت کے ساتھ قرأت، تواضع کے ساتھ رکوع، تضرع کے ساتھ سجدہ، حلم و وقار کے ساتھ جلسہ اور شکر و اطمینان کے ساتھ سلام پھیرتا ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اکل و شرب سے فارغ ہوتے تو کمالِ حیرت کے مقام میں شوق کے طالب ہوتے اور یکسو ہو کر خاص مشرب سے انہماک فرماتے۔ اس وقت آپ فرماتے ’’ارحنا یا بلال بالصلٰوۃ‘‘ اے بلال! نماز کی اذان دے کر ہمیں خوش کرو۔ (کشف المحجوب)