ہفتہ ‘ 12؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 12 ؍ اکتوبر 2019 ء
’’فضل الرحمن 27 اکتوبر سے پہلے ہی علاج کے بہانے بیرون ملک چلے جائیں گے‘‘ قندیل بلوچ فیم مفتی قوی
مفتی صاحب نے اس انکشاف کے لئے باقاعدہ پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس سستی شیٔ نہیں، خاصے اخراجات اُٹھتے ہیں۔ پھر جو آدمی جتنا مشہور ہو، اس کار خیر میں اُس کی جیب اُسی حساب سے ہلکی ہوتی ہے۔ موصوف نے دعویٰ کیا ہے کہ حضرت مولانا 25 اکتوبر تک چندہ اکٹھا کریں گے۔ 26 کو بیمار پڑ جائیں گے۔ اور پھر ملک سے فرار ہو جائیں گے۔ اخبار والوں نے مفتی عبدالقوی کو پی ٹی آئی مذہبی ونگ کا عالم لکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ مفتی صاحب کا رشتہ کِسی چندہ خور یا قربانی کی کھالیں جمع کرنے والی جماعت سے نہیں، اچھی خاصی کھاتی پیتی پارٹی سے ہے۔ مفتی صاحب اپنی زندگی میں قندیل بلوچ کو جنت کی راہ دکھا چکے ہیں۔ اُس راوی کی گردن پر دروغ کا بوجھ جس کا دعویٰ ہے کہ قبلہ مفتی صاحب نے قندیل بلوچ کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے، جو چلہ کاٹا اور تعویذ لکھے، وہ اُلٹے پڑ گئے۔ انہوں نے جس ماڈل کو اپنی دعاؤں سے شہرت کے بام تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔ اُس کا حشر بڑا المناک ہوا اور مفتی صاحب کی خوش بختی کہ وہ قتل کے اس سنگین مقدمے میں بری ہوگئے۔ آمدم برسرِ مطلب، ہم ذکر کر رہے تھے، مفتی قوی صاحب کی پریس کانفرنس کا۔ اُن کی باتوں میں کِس قدر صداقت ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، البتہ اُن کی پریس کانفرنس سے تحریک کے حلقوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی ہو گی۔ اُن کے معتقدین بن کر جنہوں نے ایک زمانے میں تاریخ کا سب سے طویل دھرنا دیا تھا وہ جانتے ہیں کہ دھرنا کِسی میلے یا ثقافتی شو کا نام نہیں بلکہ نہ صرف حکومت جام اور عوام محبوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو مولانا کے دھرنے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ اُنہیں وہم ہے کہ دھرنے کے لئے ایمپائر کا وجود بھی ضروری ہے۔ ورنہ دھرنے سے جلدی ہی پھوک نکل جاتی ہے۔ اور چند لاٹھی بردار پولیس والے ہی ان کی مدارات کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ ہم تو خود دھرنے کے حق میں نہیں، اگرچہ عالمگیر سچائی یہ ہے کہ چاہ کن راچاہ درپیش، لیکن مفتی صاحب اگر تھوڑی سی ہمت کریں جیسا کہ اُنہوں نے خود کہا ہے کہ دھرنا ورنا کی اصل کچھ نہیں، یہ چندہ اکٹھا کرنے کا پاکھنڈ ہے اور یہ کہ مولانا 27 اکتوبر کو کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ اگر واقعی یہ سچ ہے تو اُنہیں جتنا پیسہ مطلوب ہے، وہ حکومت حکومت سے لے دیں، تاکہ خلق خدا اطمینان کا سانس لے۔ سکون سے گھروں میں رہے، یا سڑکوں پر رواں دواںہو۔
٭…٭…٭
شیخ محمد بن راشدالمکتوم نے دُنیا کا مہنگا ترین گھوڑا خرید لیا
متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمران شیخ محمد راشد المکتوم نے برطانیہ میں گھوڑوں کی فروخت کے عالمی میلے میں 68 کروڑ روپے سے زائد سے دُنیا کا مہنگا ترین گھوڑا خرید لیا ۔موصوف کا شمار دُنیا کے ان چند افراد میں ہوتا ہے جنہیں گھوڑوں سے بہت لگاؤ ہے۔ ستر اسی سال پہلے دُنیا میں سر آغا خان سوم کے گھوڑوں کی خوب شہرت تھی، جو ہمیشہ عالمی ریس جیتا کرتے اور خطیر رقم لاتے۔ سر آغا سوم نہ صرف ریس کے شوقین تھے، بلکہ عالمی سطح کے سیاستدان تھے، اسماعیلی فرقے کے سربراہ اور مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے۔ اُنہیں سر کا خطاب حاصل تھا۔ شادیاں بھی کیں، کچھ رومانس بھی اُن سے منسوب ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حقیقی معنوں میں سٹیٹسمین تھے۔ بلا امتیاز مسلک اسلامی اداروں کی مثلاً علی گڑھ یونیورسٹی‘ انجمن حمایت اسلام، بلکہ بعض لوگوں کے بقول دارالعلوم دیوبند کی بھی مالی مدد کرتے تھے۔ دُنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ اُن کے ملی کارناموں کو دیکھتے ہوئے اُنہیں کِسی صورت بھی عیاش نہیں کہا جا سکتا۔ دراصل اُن کا شمار مسلمانوں کے ابطال جلیل میں ہوتا ہے۔ علامہ اقبال اور قائداعظم سمیت اس دور کے مسلمان رہنماؤں سے گہرے تعلقات رکھتے تھے۔ ان کے ایک ہی صاحبزادے تھے جو پرنس علی خاں کہلاتے تھے۔ بہت خوبرو تھے، ہر وقت پریوں کے جھرمٹ (یورپ اور ہالی ووڈ کی حسینائیں) میں نظر آتے تھے۔ چنانچہ ان کے لچھن دیکھ کر سر آغا خان نے اُنہیں اپنا ولی عہد اور اسماعیلی فرقے کا سربراہ بنانے سے اجتناب کیا اور اُن کی جگہ اُن کے بیٹے اور اپنے پوتے پرنس کریم خاں کو ان مناصب پر فائز کر دیا۔ کراچی کا سر آغا خان ہسپتال اور یونیورسٹی اُن کی نشانیاں اور عالمی معیار کے ادارے ہیں۔ یہ طویل کہانی سنانے سے مقصودیہ ہے کہ ابھی تک شیخ محمد بن راشدالمکتوم کا ایسا کوئی کارنامہ سامنے نہیں آیا۔ البتہ متحدہ عرب امارات کے پہلے حکمران شیخ زاید بن النہیان نے خلق خدا کی بھلائی کے کاموں پر دل کھول کر خرچ کیا۔ لاہور اور رحیم یار خاں کے شیخ زائد ہسپتال کے نام سے طبی ادارے رہتی دُنیا تک اُن کا نام روشن رکھیں گے۔
٭…٭…٭
میری ساس بھائی بھتیجے کو بھی لوٹا گیا‘ سوچیں ازدواجی زندگی کیسی ہو گی؟ آئی جی سندھ
کراچی میں کمیونٹی پولیس کے سیمینار میں آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے بتایا کہ میں کراچی میں رہتا ہوں کہ لٹیروں نے میری ساس سے زیور چھین لیا، سوچیں میری ازدواجی زندگی کیسی ہو گی۔ بھائی اور بھتیجے بھی لٹ چکے ہیں۔ ڈاکٹر کلیم امام سینئر اور انتہائی با صلاحیت پولیس آفیسر ہیں۔ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے اُنہوں نے ہڈورتی کے حوالے سے بڑے رقت انگیز واقعات بیان کئے ہیں ساتھ ہی دعوت دی ہے کہ سوچیں! ان حالات میں ازدواجی کیسی ہو گی۔ غور کرنے سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ازدواجی زندگی بڑی قابل رحم ہو گی۔ دُنیا میں ہر قسم کے اعتراض اور طعنے برداشت ہو سکتے ہیں۔ لیکن ساس کے سامنے دم مارنے کی ہمت بہت ہی کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ ساس کا یہی کہہ دینا کہ آپ کیسے آئی جی ہو کہ مجرموں نے دن دیہاڑے میرے زیور اُتروا لئے۔ شرم سے پانی پانی کردینے کیلئے کافی ہے۔ اب یہ ایک ایسا طعنہ ہے کہ جس کا جواب دینے کے لئے بڑی ہمت کی ضرورت ہے ورنہ ایسے موقعوں پر منمناناہی کارگر ہوتا ہے۔ اتنے بڑے خاندانی لوگوں سے یہ توقع تو نہیں کی جا سکتی کہ ساس صاحبہ نے بیگم صاحبہ کو کہا ہو کہ ذرا پتہ تو کروکہ ڈاکٹر صاحب واقعی آئی جی ہیں یا ویسے ہی گھر میں ہی رعب جمانے کے لئے آئی جی بنے پھرتے ہیں۔ رہ گیا بھائی اور بھتیجے کا لٹنا تو اس حوالے سے صرف اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ لٹیرے شکار سے حسب و نسب نہیں پوچھا کرتے!