خیرہ نہ کر سکا ’’جسے‘‘ جلوۂ دانشِ فرنگ!
سچی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان نے قومی اسمبلی کے جنرل اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے ایک کروڑ کے لگ بھگ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے ظالمانہ اقدامات پر بھارتی حکومت کی سفارکانہ کارروائیوں کے حوالے سے جو تقریر کی تھی، اس کے صدائے بازگشت کرۂ ارض کے چپے چپے پر نہ صرف سنی جا رہی ہے بلکہ درد دل رکھنے والے انسانی حقوق پر غیر متنرلزل یقین رکھنے والوں پر بھارت کی بنیاد پرست ہندوحکومت کے مردم آزار عزائم کا بھی پردہ چاک ہو گیا ہے۔ اور یہ شرف صدیوں بعد صرف اور صرف وزیراعظم عمران خان ہی کو حاصل ہوا ہے کہ انہوں نے اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک کے اجتماع میں مسلمانان کشمیر کی جدوجہد آزادی اُن کی دی جانے والے قربانیوں اور غاصب بھارتی ہندو حکومت کے انسانت سوز مظالم سے آگاہ کرتے ہوئے سیدالانبیاء سرور کائنات حضرت محمدؐ کی عظمت او حرمت پر حرف گیری کرنے والے نام نہاد یورپی دانشوروں اور کار پردازان، اختیارات کو وارننگ دیتے ہوئے عقل سے کام لینے کی تلقین کی۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں 57 مسلمان ریاستوں کے سربراہ بھی موجود تھے۔
وزیراعظم عمران خان کی اس روح پر ور تقریر کے گھر گھر چرچے ہیں مگر بھارتی سابق چیف جسٹس مسٹر کانجو نے اس حوالے سے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ تبصرہ کیا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی تقریر ہر لحاظ اور ہر پہلو سے کرہ ارض پر صلح و آشی اور امن کے پیغام کی حیثیت رکھتی ہے اور اس تقریر کی اقوام عالم میں وسیع پیمانے پر تشہیر ہونی چاہئے۔ بلاشبہ یہ فرض تو اربابِِ حکومت کے حصے میں آتا ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان میں بھی درد دل رکھنے والے محب وطن پاکستانیوں نے اس فرض کی ادائیگی کو جزوایمان سمجھ لیا ہے۔
حال ہی میں ایک محب وطن پاکستانی محترم ایف یو صابر نے اپنے موبائل پر موصول ہونے والی ایک ای میل کی نقل میرے ایسے کچھ دوستوں کو بھی بھیجی ہیں جسے پڑھ کر ایمان کی حرارت کا دل میں تیز تر ہونا یقینی ہوا ہے۔ عمران خان کی جنرل اسمبلی میں تقریر بارے اُن کا تبصرہ مختصراً کچھ یوں ہے۔ ’’جنونی انتہا پسند مسلمان نہیں بلکہ یہودیت، عیسائیت اور ہندومت میں بھی ایسے جنونی پائے جاتے ہیں۔ خودکش حملے صرف نائن الیون والا مسلمان نہیں کرتا۔ بلکہ دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے بھی امریکہ کے جہازوں پر ایسے فدائی حملے کئے۔ ہندوتامل ٹائگرز نے بھی سری لنکا میں ایسے حملے کئے۔ لیکن ان معاملوں میں بس انسانوں کا نام آیا۔ ان کے مذہب کا نہیں۔ نیوزی لینڈ میں جس نے پچاس مسلمانوں کو مار دیا۔ کیا میں اس کشت و خون کو مذہب سے جوڑ دوں عجیب خطیب تھا۔ جو اپنے آپ کو الزام دیتا رہا کہ ہم مسلمان لیڈروں سے غلطی ہوئی کہ ہم نے مغرب کو مسلمانوں کے نبیؐ کے بارے میں اپنے احساسات کو ٹھیک سے آگاہ نہیں کیا۔ اس حقیقیت سے آشنا نہیں کیا کہ نبیؐ ہمارے دل میں رہتے ہیں۔ اور دل کا درد جسم کے درد سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔
وہ ’’ہولو کاسٹ‘‘ جس پر امریکہ میں بات بھی نہیں کی جاتی کہ یہودیوں کا دل نہ دکھے اور ان کے زخم ہرے نہ ہو جائیں۔ لیکن عجیب مبلغ تھا کہ اس کا ذکر کر بیٹھا کہ دل مسلمان کے سینے بھی ہوتا ہے جو بری طرح مجروح ہوتا ہے۔ جب اسی کے دل سے بھی قریب پیارے محبوب نبیؐ کی شان میں غلط الفاظ یا تصاویر کا استعمال کیا جاتا ہے جسے ہولو کاسٹ پر مغرب بات کرنے سے پرہیز کرتا ہے ایسے ہی اسے شانِ محمدؐ کے بارے میں آزادئی رائے کے نام پر حد سے تجاوز کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
مجھے بہت خوشی ہوئی۔ کیونکہ چند ماہ قبل ایک سینئر انگریز ڈاکٹر نے مجھ سے نبی پاکؐ اور اسلام کے بارے میں پوچھا کہ ’’اسلام میں تو حکم ہے کہ کہ سب کافروں کو مار ’’ڈالو‘‘ اور یہ بھی کہا کہ ہم جب اپنے نبی حضرت عیسی (علیہ السلام) کے بارے میں فلموں میںکارٹون بنا لیتے ہیں تو آپ لوگ اپنے بارے میں اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ انہوں نے غزوۂ احد کے دنوں میں نازل ہونے والی ایک آیت کریم کا حوالہ دیا تھا۔‘‘ اس پر میں نے جواب دیا تھا کہ ’’جنگ میں سامنے والے کو مارا ہی جاتا ہے۔ کیا آپ امریکہ والے ویت نام کی جنگ میں ویت نامی فوجیوں کو مارتے تھے یا پھول کے ہار پہناتے تھے؟ ہم اپنے پیارے نبیؐ کے ساتھ ساتھ حضرت عیسیؑ کا بھی اتنا ہی احترام کرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی سورت بقرہ کی آخری آیات میں ذکر ہے۔ ہم آپ سے بھی ایسا ہی کرنے کی امید کرتے ہیں۔