آر پی او کا سائلان کے ساتھ حُسن سلوک
ہم کسی ایسی جگہ میں رہیں جہاں زندگی کی ہر سہولت میسر ہو، صاف پانی وافر خالص خوراک دولت شہرت اور وسائل کی کوئی کمی نہ ہو ہر گلی ،محلہ گھر اور شہر میں ہر طرح کی سہولت میسر ہو مگر امن نہ ہو، انصاف نہ ملے، سکون نام کی کوئی چیز کی بجائے مجرموں کا خوف اور طاقت ور کی زورآوری سے ڈرلگے تو ایسامعاشرہ تمام خوبیوں کے باوجود بھی رہنے کے قابل نہیں بالکل نہیں اور اس امن و امان کو قائم رکھنے کے لئے ہمارے پاکستان میں جو فورس ہے اس کو پولیس کہتے ہیں شہریوں کے جان ومال کے محافظ امن و امان کو قائم رکھنے کی ذمہ دار بد قماش، سر پھرے آوارہ دولت مندوں یا غربت و ظلم کی چکی میں پسے ہوئے باغی اور خود سر ان کو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے سے جو فورس روکتی ہے وہ پولیس ہے پولیس کی کارکردگی کئی طرح سے متاثر ہوتی ہے ،رشوت اور سفارش سے لگائے جانے والے اہلکاروں اورسیاسی مداخلت اس کی خراب کارکردگی کی بڑی وجہ ہے مگر پھر بھی اس فورس کا ہوناجرائم پیشہ افرادکے لئے خوف کی علامت ہے اگر چند دنوں کے لئے اس فورس کو معطل کردیا جائے تو آپ نا قابل بیان بگاڑ اپنے معاشرے میں دیکھیں گے کہ شرفاء اور پرہیز گار وں کو بھی اپنی طاقت اوروسائل کے مطابق اپنے سے نچلے لوگوں پر کس طرح سے ظلم کرتے ہیںکہ بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائیوں کی گھر سے نکال دے گا بوڑھے ماں باپ جائیدار کے تنازع میں روڈ پرآئے پڑے ہوں گے اور ایسے ایسے واقعات رونما ہوں گے کہ خدا کی پناہ ۔کیونکہ ہمارے معاشرے میں اب تک تعلیم پر تو لاکھوں روپے خرچ ہو رہے ہیں مگر تربیت نام کی کوئی چیز ہم بچوںکو نہیں دے رہے مطلب ہے کہ سارا معاشرہ پولیس کے بغیر چلنا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے کہ پولیس کے ڈر سے ہی ہم ایک دوسرے کا حق مارنے سے ڈرتے ہیں مگر اس پولیس کی کارکردگی کو بہتر کس انداز میں کیا جائے کہ پولیس ہر شخص اور شہری کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق اپنی مدد فراہم کرے اگر کسی کی حق تلفی نہ ہو ہر غریب اور امیر بلا جھجک پولیس کے پاس اپنی شکایات لے کرجا سکے پولیس ہر کیس میں غیر جانبدار ہو اور کسی کے ساتھ نا انصافی نہ کرے کسی بھی فریق کے ساتھ مل کر دوسرے فریق کو نقصان نہ دے تو یہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اس سلسلے میں ڈی جی خان میں بطور آر پی او تعینات محمد عمر شیخ جو کہ اچھے لب و لہجے اور بااخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین آفیسرکے طور پر مشہور ہیں پولیس کے خلاف شکایات ہوں یا کہ کیس میں تفتیشی کی عدم توجہی اور عدم دلچسپی ، تفتیشی کا ملزمان کے ساتھ کسی بھی وجہ سے میل ملا پ کی شکایت ہو یا کہ مدعی کے کیس کو جان بوجھ کر غلط ثابت کرنے کی کوشش ہو یا پھر پولیس کو ہی اپنے کسی پولیس آفسر سے شکایات ہو تو ہر سائل ریجنل پولیس آفیسر کے پاس اپنی شکایت لیکر جاتا ہے۔ جس کو وہ بہترین انداز میں حل کرتے ہیںجس کی وجہ سے ہر سائل پر امید ہو کر جاتا ہے کہ اب اس کا مسئلہ ضرور حل ہو گا کیونکہ آرپی او کا سائلین کی زبان اور بولی میں ان سے اچھے رویہ سے گفتگو کرنا ہی ان کا اعتماد بڑھا دیتا ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا اگر یہ خوبی ہر ایس ایچ او اور ڈی ایس پی میں موجود ہو اور اس کی سب کو خاص تربیت دی جائے تو عوام کے مسائل بہتری سے حل ہونا شروع ہو جائیں گے اور عوام سالہا سال ایک دوسرے کے خلاف عدالتوں میں جانے کی بجائے انہیں تھانوں اور ڈی پی او آفس میں ہی ایک دوسرے سے مسائل حل کر لیںگے کیونکہ آر پی او نے اپنی کھلی کچہریوں اور اردل روم میں کئی فیملیوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل جوہ کہ بڑے بڑے جھگڑے بن چکے ہوتے ہیں مناسب طریقے سے فوری حل کرتے ہیں اس طرح کے آفیسرز اور ان کی بڑی حکمت عمل سے ہی جرائم کنڑول ہوتے ہیںاور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا ہے اس سلسلے میں محمد عمر شیخ نے صحافیوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غربت مہنگائی ،تعلیم و تربیت کی کمی سے جرائم میں بے حد اضافہ ہورہا ہے جن کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس اپنی خدمات بخوبی سرانجام دے رہی ہے اور تمام معاشرتی بیماریوں کا حل صرف پولیس کے پاس ہی ہے پولیس میںنئی اصلاحات بھی متعارف کروائی جارہی ہیں جس سے جرائم کو جڑ سے ختم کیا جائے اس کیلئے عمران خان کی حکومت کی کامیابی یہ ہے کہ پولیس سے سیاسی مداخلت اور سفارش کے کلچر کو ختم کردیا گیا ہے جس سے ہر امیر اور غریب شخص کو برابری کی سطح پر پولیس سے انصاف ملے گا۔بہت جلد ڈیرہ غازیخان کوپنجاب سیف سٹی اتھارٹی میں شامل کیا جا رہاہے جس کا مقصد امن و امان کی صورتحال کو مزید بہتر بنانا ہے عمران خان کی حکومت نے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کی سرگرمیاں سراہے جانے کے قابل ہیں حکومت پنجاب نے سیف سٹی اتھارٹی میں بہت سی نئی اصلاحات متعارف کرائی ہیں جس سے سٹریٹ کرائم کو سو فیصد کنٹرول کر دیا جائے گا۔