وزیراعظم کا پچاس لاکھ گھروں کے ہائوسنگ پروگرام کا افتتاح اور چیف جسٹس کے ریمارکس
وزیراعظم عمران خان نے ’’نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان سے منی لانڈرنگ ہی روک لی جاتی تو ہمیں قرضہ نہ لینا پڑتا‘ حوصلہ رکھیں‘ گھبرانے کی بات نہیں‘ ایک چھوٹا عرصہ ہے‘ قوم نہ ڈرے‘ میں ملک کو اس مشکل وقت سے نکال کر دکھائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ مشکل دور سے گزرنا پڑیگا‘ حکومت غیرملکی قرضوں کو ادا کرنے کیلئے قلیل معیاد کے اقدامات کررہی ہے۔ انکے بقول دس سے بارہ ارب ڈالر کی فوری ضرورت ہے جسے پورا کرنے کیلئے دوست ممالک کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے بھی رجوع کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اصلاحات کے اثرات چھ ماہ بعد نظر آئینگے۔ ہم پانچ سال میں پچاس لاکھ گھر بنا کر دینگے‘ تحریک انصاف کو 18‘ ارب ڈالر کا خسارہ پچھلی حکومت سے تحفے میں ملا۔ آنیوالے دنوں میں پاکستان کے پاس اتنے ڈالرز نہیں ہیں کہ قرضوں کی قسط ادا کرسکیں۔ ہمیں قرضہ اس لئے چاہیے کہ واجب الادا قرضے کی قسط اداکرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ غریب اور تنخواہ دار طبقے کیلئے ہمارا ہدف پچاس لاکھ گھر ہیں۔ امریکہ میں 80 فیصد لوگ قرضہ لے کر گھر بناتے ہیں‘ بھارت میں گیارہ اور پاکستان میں 0.25 فیصد لوگ قرضہ لے کر گھر بناتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ بیروزگار نوجوان ہائوسنگ سکیم سے روزگار لیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت سکل ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کررہی ہے‘ ہائوسنگ سکیم میں تعمیر پرائیویٹ سیکٹر کریگا۔ کم آمدنی والوں کو رہائش دینے کیلئے نادرا سے مدد لیںگے۔ میں نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کے معاملہ کی خود نگرانی کروں گا۔ یہ اتھارٹی 90 دن میں کام شروع کر دیگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں کچی آبادیوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائیگا۔ انکے بقول اسلام آباد کی سب سے قیمتی زمین پر کچی آبادی قائم ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ اپنے گوناںگوں مسائل سے لاچار ہوئے عوام نے عمران خان کے تبدیلی اور نئے پاکستان کے ایجنڈے میں اپنے مستقبل کیلئے امید کی کرن دیکھ کر ہی انکے ساتھ توقعات وابستہ کیں اور جولائی 2018ء کے انتخابات میں انہیں حکمرانی کیلئے مینڈیٹ دیا۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ کرپشن کلچر میں لتھڑے ہوئے ہمارے معاشرے کو ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہے جو بے رحم احتساب کے جذبے سے نہ صرف سرشار ہو بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات اٹھانے کی اہل بھی ہو اور اس کا اپنا دامن بھی کرپشن کی الائشوں سے مکمل پاک ہو۔ اسی طرح اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ یہ ارض وطن بذاتِ خود گوناں گوں مسائل کا شکار ہے جن میں ملکی سلامتی کو درپیش بیرونی خطرات کے علاوہ بیرونی قرضوں کے قومی معیشت کیلئے پیدا کردہ مسائل بھی شامل ہیں۔ یہ قرضے صرف سابقہ حکومت کی جانب سے ہی تحفے میں نہیں ملے بلکہ بیرونی قرضوں کا بوجھ ہم پر 60ء کی دہائی سے ہی پڑنا شروع ہوگیا تھا چنانچہ ہمارے 60ء کی دہائی سے اب تک کے سابقہ حکمرانوں کی عاقبت نااندیشیوں کے نتیجہ میں ہی آج نہ صرف ہماری معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہے بلکہ ہماری آنیوالی نسلوں تک کے مقروض پیدا ہونے کی اقتصادی ماہرین کی رپورٹیں ہمارے اس قومی المیئے کو مزید گھمبیر بنارہی ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ہمیں اب اصل قرض تو رہا ایک جانب‘ اس قرض پر واجب الادا سود کی ادائیگی کے بھی آئی ایم ایف سے قرض لینے کی مجبوری لاحق ہوچکی ہے اس لئے کوئی بھی حکومت چاہے وہ قومی خودداری اور خودمختاری کی پاسداری کے جتنے بھی دعوے اور کشکول توڑنے کے اعلانات کرتی نظر آئے‘ اسے بالآخر یہی کشکول تھام کر آئی ایم ایف کے در پر جانے اور قرضوں کی بھیک کے عوض قومی خودمختاری کے منافی کڑی شرائط پر سر جھکائے عمل کرنے کی مجبوری لاحق ہوجاتی ہے۔ 2013ء کے انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی تو اسکے اقتدار کے آغاز میں بھی اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کشکول توڑنے اور آئی ایم ایف کا قرضوں کا باب بند کرنے کا بلند بانگ دعویٰ کیا مگر اس حکومت کو بھی اپنے پہلے ہی بجٹ میں کشکول اٹھا کر آئی ایم ایف کے حضور پیش ہونے کی مجبوری لاحق ہوگئی اور پھر اس نے اپنے پورے عرصۂ اقتدار میں کشکول تھامے رکھا جس پر پڑنے والی قرضوں کی بھیک کے عوض اس حکومت کی جانب سے نہ صرف ہر بجٹ میں عوام کیلئے نئے ٹیکس اور ڈیوٹیاں متعارف کرائی جاتی رہیں بلکہ ہر تین چار ماہ بعد منی بجٹ لا کر بھی اس حکومت کی جانب سے عوام پر مہنگائی کے نئے تازیانے برسائے جاتے رہے۔ اسکے علاوہ عالمی مارکیٹ کے نرخوں کے قطعی برعکس سابقہ حکومت ہر پندرہ روز بعد پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی اضافہ کرتی رہی اور اسی طرح گیس‘ بجلی اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاء کے نرخ بھی مسلسل بڑھتے اور عوام کیلئے سوہانِ روح بنتے رہے۔ سابقہ حکومت توانائی کے بحران کے حل سے متعلق اپنا وعدہ بھی پورا نہ کرپائی چنانچہ 2018ء کے انتخابات میں عوام نے پیپلزپارٹی کی ہی کی طرح مسلم لیگ (ن) کو بھی راندۂ درگاہ بنا کر گھر بھجوا دیا۔
عوام کو بہرصورت اپنے گوناں گوں مسائل سے نجات کا باعث بننے والے حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کی ضرورت ہے جس کیلئے وہ جس میں بھی امید کی کرن محسوس کرتے ہیں‘ اس کا دامن تھام لیتے ہیں تاہم جو بھی قائد عوام کے مینڈیٹ کی بنیاد پر اقتدار میں آکر انکی امیدیں ناامیدی میں بدلنا شروع کرتا ہے‘عوام اس کا دامن جھٹکنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگاتے۔
عمران خان کے ساتھ عوام نے اس بنیاد پر بھی زیادہ امیدیں وابستہ کیں کہ انہوں نے کرپشن فری سوسائٹی کی تشکیل اور پاکستان کا سرمایہ پاکستان میں ہی بروئے کار لانے کیلئے بھی امید کی کرن دکھائی۔ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے اقتدار کے پہلے سو دن کے ایجنڈا میں بھی جہاں اقتدار کے ایوانوں میں ضائع ہونیوالے قومی سرمایہ میں بچت کا پروگرام شامل کیا‘ وہیں کرپشن فری سوسائٹی کیلئے نیب کو زیادہ متحرک کرنے کا بھی عندیہ دیا اور پھر اس ایجنڈے پر عملدرآمد کا آغاز بھی کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے ان ابتدائی اقدامات سے عوام فی الواقع مطمئن ہوئے کہ اب معاشرے کی اصلاح کیلئے فی الواقع عملی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے ان ابتدائی ایام میں وزیر خزانہ اسدعمر کی جانب سے نئے قرضے کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس پر بھی عوام کو اطمینان حاصل ہوا کہ وزیراعظم عمران خان کے نئے پاکستان کے ایجنڈے کے مطابق حکومت اپنے سفر کا آغاز کررہی ہے۔ تاہم پھر ایک ہی ہفتے بعد یکایک پی ٹی آئی حکومت کو بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح معیشت کو سنبھالا دینے کے نام پر آئی ایم ایف سے قرض کیلئے رجوع کرنے کی مجبوری لاحق ہوگئی جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے ہماری معیشت پر تازیانے برساتی کڑی شرائط پہلے ہی منظر عام پر آچکی تھیں جن کے تحت حکومت پاکستان کو روپے کی قدر میں خاطرخواہ کمی عمل میں لانے اور بجلی کے نرخ ماہانہ 21 روپے فی یونٹ تک لے جانے کا ’’نیک‘‘ مشورہ دیا گیا۔
جب وزیر خزانہ کے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ہی بجلی‘ گیس کے نرخ بڑھائے گئے اور پھر وزیر خزانہ کے آئی ایم ایف حکام سے مذاکرات کیلئے انڈونیشیا روانہ ہوتے ہی ملک میں روپے کی بے قدری انتہاء کو جا پہنچی تو اس معاملہ میں عوام کے دلوں میں یہ تاثر پیدا ہونا فطری امر تھا کہ یہ سارے اقدامات حکومت ہی کی جانب سے آئی ایم ایف کی عائد کردہ پیشگی شرائط قبول کرتے ہوئے اٹھائے گئے ہیں۔ اس کیلئے بے شک وفاقی وزراء بھی اور خود وزیراعظم عمران خان بھی قوم کو مشکل صورتحال سے آگاہ کررہے ہیں اور انہیں اچھے مستقبل کیلئے امید کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین کررہے ہیں تاہم عوام کا اضطراب اس تناظر میں بڑھ رہا ہے کہ یہی سارے معاملات تو سابقہ حکمرانوں کے ادوار حکومت میں بھی ہوتے رہے ہیں اس لئے ان میں اور موجودہ حکمرانوں میں کیا فرق ہے۔ اس فضا میں عوام کو مطمئن کرنے کیلئے حکومت کے پاس احتساب کا عمل تیز کرنے اور فلاحی عوامی منصوبوں کا اجراء کرنے کا آپشن ہی رہ گیا تھا چنانچہ اب یہی اقدامات تیزی سے اٹھائے جارہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا گزشتہ روز ’’نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام‘‘ کا افتتاح یقیناً اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس کے تحت جہاں بے وسیلہ افراد کیلئے پانچ سال کے عرصہ اقتدار میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا مژدہ سنایا گیا ہے وہیں اس منصوبے کے تحت بے روزگاروں کیلئے روزگار کے مواقع نکلنے کی امید بھی پیدا کی گئی ہے تاہم یہ روزگار زیادہ تر محنت مزدوری سے متعلق ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کی ڈگریوں کی وقعت گھٹانے کے مترادف ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے گزشتہ روز کچی آبادیوں کو ریگولرائز کرنے اور این جی او سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران یقیناً اسی تناظر میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ٹیکس بڑھ گئے ہیں‘ ڈالر جستیں بھرتا کہاں تک جاپہنچا ہے‘ مہنگائی سے لوگ پریشان ہیں‘ پچاس لاکھ مکان بنانا خالہ جی کا گھر نہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے پوری دردمندی کے ساتھ وزیراعظم سے اس امر کا بھی تقاضا کیا ہے کہ وہ وقت نکال کر خود کچی آبادیوں میں جائیں اور انکے حالات دیکھیں کیونکہ ان بستیوں میں رہنے والے وسائل سے محروم افراد بھی انسان ہیں‘ کوئی کیڑے مکوڑے نہیں۔
پی ٹی آئی کیلئے گورننس سے متعلق یہ سارے معاملات یقیناً ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ عوام وزیراعظم عمران خان کے اعلانات کو عملی جامہ پہنایا جاتا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں سرخرو ہونا ہی حکومت کی اصل آزمائش ہوگی۔ بصورت دیگر عوام کا اضطراب بڑھتا ہی جائیگا جو پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔