جمعۃ المبارک‘ 2؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 12اکتوبر 2018ء
ڈالر کی پرواز جاری، اوپن مارکیٹ میں ریٹ 135 سے بڑھ گیا
امریکہ کے ساتھ دوستی کا آغاز قیام پاکستان کے فوری بعد ہوا چنانچہ اس حساب سے ہماری ڈالر کے ساتھ یاری بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی امریکہ کے ساتھ دوستی۔ یہ الگ بات ہے کہ؎
دوست کچھ ایسے بنائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج کچھ ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
امریکہ سے دوستی کے بعد ہم نے اپنے پڑوسیوں سے جو خوامخواہ کی دشمنی مول لی اسکی قیمت ہمیں اب تک چکانی پڑ رہی ہے۔ اس حساب سے امریکہ نے ہماری دوستی کا کبھی حق ادا نہیں کیا۔ یہی حال ڈالر کا ہے۔ یہ صاحب ہمارے پیارے راج دلارے روپے کا کچھ اس قدر دشمن ثابت ہوا ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر اس کی ایسی کلاس لیتا ہے کہ روپے کو اپنی اوقات یاد آجاتی ہے اور وہ اپنی قدر کھو دیتا ہے۔ جو ڈالر صاحب کے مقابلے میں غریب روپے کی معاشی حالت کی طرح روز بروز نیچے گرتی جا رہی ہے۔ گذشتہ دنوں پھر اس بے وفا ڈالر نے جست لگائی کہ روپیہ منہ دیکھتا رہ گیا اور غریب عوام کی سانسیں ڈالر کی چڑھتی ہوئی قیمت کے ساتھ اٹکنے لگیں کیونکہ اب اس ڈالر کے دھوبی پٹڑے سے کوئی نہیں بچ پائے گا اور ہر چیز کی قیمت اوپر چڑھنا شروع ہو جائے گی۔ اب عوام کو ڈالر کے اس جھٹکے سے کون بچائے گا۔حکومت تو خود کو ڈالر کے وار سے بچا نہیں سکی۔ وہ عوام کی کیا حفاظت کرے گی۔ ڈالر کی پرواز ہنوز جاری ہے اور عوام بے دم ہو کر گر رہے ہیں۔ ڈالر اب تک 135 کا ہندہ کراس کر چکا ہے اور حکومتی وزراء کے عین مطابق 140 تک باآسانی پہنچ جائے گا۔ شاید اس کے بعد سستانے کے لئے کچھ دیر اسکی پرواز رک جائے۔
٭…٭…٭
سینٹ میں وزیر اطلاعات چودھری فواد اور حزب اختلاف کے مشاہد اللہ کے درمیان جھڑپ
جن لوگوں نے میڈیا پر سینٹ کے گذشتہ اجلاس کی کارروائی دیکھی وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ دو پڑھے لکھے معزز عوامی نمائندگان اس اعلیٰ ایوان میں کسی سکول کے بچوں کی طرح لڑ رہے تھے۔ ایوان کے چیئرمین نے ہیڈماسٹر کی طرح انہیں بار بار روکا ٹوکا مگر یہ باز نہیں آئے۔ اس سے پہلے کہ معاملہ حدود و قیود سے آگے نکل جاتا چیئرمین سینٹ نے جب دیکھا کہ یہ دونوں پیار سے بات نہیں سمجھ رہے تو انہوں نے فواد چودھری کو وارننگ دی کہ وہ مشاہد اللہ سے معافی مانگیں ورنہ انہیں ایوان سے نکال دیا جائے گا۔ اس دوران دونوں کے حمایتیوں نے خوب ماحول گرم رکھا، شور شرابا اور نعرے بازی یوں ہو رہی تھی جیسے شائقین اپنے اپنے پہلوانوں کا لہو گرما رہے ہوں اور یہ دونوں پہلوان ایک دوسرے پر خوب وار کر رہے تھے۔ بعدازاں رضا ربانی نے لابی میں جا کر دونوں کی صلح کرا دی۔ یوں یہ اینگری ’’ینگ ٹو اولڈ مین‘‘ واپس ایوان میں آئے۔ شکر ہے یہ مقابلہ تو تو میں میں تک ہی محدود رہا ورنہ الزامات اور دھمکیوں کے بعد بات گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک آسکتی تھی۔ یہ ہمارے پڑھے لکھے سلجھے ہوئے معزز ممبران سینٹ کا حال ہے تو پھر عوام کو اطمینان اور صبر و تحمل کا درس کون دے گا وہ یہ سب کچھ دیکھ کر کیا سیکھیں گے۔ یہ گلی محلے والی سوچ اور لڑائی جھگڑے ایسے ایوانوں میں نہیں سجتے جہاں ملک و قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔
٭…٭…٭
ایان علی کے نام پر بھی جعلی اکاؤنٹس نکل آئے
بات یہاں تک ہی رہتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ایان علی پہلے سے ہی ڈالروں کے کھیل کی کھلاڑی رہی ہیں۔ ان کے پاس ملک میں اور غیر ملک میں نجانے کتنے اکاؤنٹس ہوں گے جبھی تو وہ ڈالر سے بھرے بیگ لے کر آتی جاتی تھیں۔ کوئی انہیں پوچھتا تک نہیں تھا۔ جب وہ رنگے ہاتھوں ڈالروں سے بھرے بیگ کے ساتھ پکڑی بھی گئیں تو کچھ شور شرابا ہوا مگر اثر کیا ہوا الٹا ان کی مشہوری کا ایسا کھیل رچایا گیا کہ وہ ملزمہ سے زیادہ ماڈل بنتی نظر آئیں۔ جو وہ پہلے سے تھیں۔ اب ڈالر گرل بن کر ان کی شہرت ایسی پھیلی کہ تھانے، کچہری میں بھی اسے شہزادی کی طرح عزت ملنے لگی۔ جیل میں بھی اسے میک اپ اور اعلیٰ ملبوسات کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ اب اگر ایان کے اور جعلی اکاونٹس ملے ہیں تو کیا ہوا۔ ’’بدنام جو ہوں ’’گی‘‘ تو کیا نام نہ ہو گا‘‘ انہیں کیا فرق پڑے گا۔ وہ تو خوش ہونگی اپنی مزید پبلسٹی پر کیونکہ…
ہم پہ الزام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی
نام بدنام تو ویسے بھی ہے ایسے بھی سہی
ہاں اگر مسئلہ ہے تو وہ یہ ہے کہ جن اکاؤنٹس سے ایان بی بی کے ائر ٹکٹس کی ادائیگی ہوتی تھی انہی میں سے سابق صدر آصف زرداری، آصفہ، بلاول اور بختاور کے غیر ملکی ٹکٹس کی ادائیگی کے بھی شواہد مے ہیں۔ اب یہ معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اب کے بارے تو معاملہ کہیں دور تک جاتا نظر آتا ہے۔ دیکھتے ہیں ایان کو بچانے والے اب خود کو کیسے بچا پاتے ہیں۔
٭…٭…٭
پنجاب بھر کے چڑیا گھروں میں گوشت کی سپلائی بند
خدا کرے یہ خبر غلط ہو، بے زبانوں کی آہ سے بچنا چاہئے۔ آزاد فضاؤں اور ماحول میں رہنے والے جانور اور پرندے تو کسی نہ کسی طرح اپنا گزارہ کر لیتے ہیں۔ ان کو کہیں نہ کہیں سے دانہ پانی مل جاتا ہے۔ مگر یہ جو چڑیا گھر میں عوام کی تفریح طبع کے لئے جانور پنجروں میں بند ہوتے ہیں ان کے روٹی پانی کا سارا دارو مدار انسانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اب اگر انسان ہی ان کی روزی روٹی میں ڈنڈی مارنے لگے تو یہ بے چارے کہاں جائیں گے۔ اب چڑیا گھر میں گوشت خور جانوروں کو گوشت کی فراہمی کی بندش کی اطلاعات مل رہی ہیں جو کسی طور مناسب نہیں کیونکہ یہ بے چارے اب کیا کریں گے۔ ہم نے کہیں بھی نہیں دیکھا کہ شیر گھاس کھاتا ہو یا چیتا پھل فروٹ کھا کر گزارہ کرتا ہو۔ جو جنگلی درندے ہیں انہیں گوشت نہیں ملا تو وہ مر جائیں گے مگر مرنے سے پہلے یہ بے زبان جب اوپر والے کی طرف دیکھتے ہوئے فریاد کریں گے تو پھر ایسا فیصلہ کرنے والوں کو کہیں بھی امان نہیں ملے گی۔ اس لئے محکمہ جنگلی حیات اور دیگر سرکاری محکمے ان جانوروں کی حالت پر رحم کھاتے ہوئے آپس کے باہمی مالی معاملات سدھاریں تاکہ جانوروں کو گوشت کی سپلائی جاری رہے۔ اگر یہ ممکن نہیں تو بھوکے مارنے سے بہتر ہے کہ انہیں واپس افریقہ کے جنگلوں میں لے جا کر آزاد چھوڑا جائے تاکہ یہ کھانے پینے کی فکر سے نجات پا سکیں۔