میرے خیال میں پوری پاکستانی قوم کو ملک پر حکمرانی کا حق ہے۔ پوری قوم ملک کی عظمت اور اقوام عالم ایک ذمہ دار اس طاقت کی معیشت سے اس کا مقام اسے لینا چاہیے۔ حال ہی میں چیف جسٹس نے لوگوں کی عام ضروریات بجلی اور پانی فراہم کرنے کے لیے اقدامات کئے ہیں۔ میں چیف جسٹس کی توجہ ایک اور مسئلے کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو لوگوں پر منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ یہ مسئلہ ملک پر بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں کا ہے۔ ہرشہری قرضے کا بوجھ کو محسوس کررہا ہے۔
بیرون ملک سے قرضوں کے حصول اور بڑھتے ہوئے داخلی قرضوں کے باعث پاکستان کے غریب لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ بیرون ملک سے قرضے لینے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ میںاس سے پہلے ایک انگریزی روزنامہ میں شائع ہونے والے آرٹیکل میںپاکستان پر غیر ملکی قرضوں کے بوجھ کے نتائج کے بارے میں وضاحت سے نکتہ نظر پیش کر چکا ہوں۔ اس وقت ہر پاکستانی ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کا مقروض ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اسی قرضے نے آئندہ آنے والی نسلوں کو مقروض بنا کر رکھ دیا ہے۔اگر حکومت نے قرضہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے کوئی منصوبہ نہ بنایا تو یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر جائے گا۔ موجودہ وزیراعظم اور ان کی حکومت ماضی کی حکومتوں سے اس حوالے سے مختلف نہیں ہے وہ ملک پر مزید غیر ملکی قرضے چڑھانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ میںپاکستان کے چیف جسٹس اور وزیراعظم کے نوٹس میں یہ حقیقت لانا چاہتا ہوں کہ ہمیں ان بنیادی مسائل پر توجہ دینا چاہیے اور غیر اہم ایشوز پر اپنا وقت نہیں ضائع کرنا چاہیے۔
ماضی کی حکومتیں مختلف بین الاقوامی اداروں سے قرض لیتی رہے ہیں۔ ان حکومتوں کے پاس قرضوں کی ادائیگی یا ان کی واپسی کے حوالے سے کوئی ٹھوس منصوبہ بھی نہیں تھا۔ سٹیٹ بنک کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت پاکستان پر 41 ارب 76 کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض ہے۔ اس کے علاوہ سی پیک کا ایک کھرب ڈالر کا قرضہ بھی ہمارے ذمہ واجب الادا ہے۔ 63 ارب ڈالر کا اندرونی قرضہ بھی حکومت کو ادا کرنا ہے۔ پاکستان کے اہم ملکی اثاثے جس میں کراچی کا قائداعظم انٹرنیشنل ائیر پورٹ‘ پشاور‘ فیصل آبادموٹروے‘ اسلام آباد پشاور موٹروے‘ اسلام آباد لاہور موٹروے‘ پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی بلڈنگز سب کے سب غیر ملکی اداروں کے پاس گروی ہو چکی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 2018-19 کا بجٹ ندامت کا باعث تھا کیونکہ یہ سارا بجٹ قرضے کی رقم کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ اس سال مالیاتی خسارہ 2.2 کھرب روپے ہو گا۔ افراط زر کی شرح 4.5 فیصد اور سالانہ ترقی کی شرح 5.28 ہو گی۔ معاشی اعشاریے کو اگر آپ مذکورہ تین رجحانات سے ملا کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ افراط زر کی وجہ سے غربت میں اضافہ ہو گا۔ روپے کی گرتی ہوئی قیمت بھی مہنگائی میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ پٹرولیم اور گیس کی قیمتوں میں تین فیصد لیوی عائد کرنے سے بھی قیمتیں بڑھیں گی۔ 89 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنا ہو گی۔
میں پاکستان کے چیف جسٹس کے نوٹس میں یہ لانا چاہتا ہوں کہ ملک کو کئی مسائل درپیش ہیں جن کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملکی قرضوں پر بھی سود کی ادائیگی کرنا ہو گی۔ ٹریڈنگ اکانومی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا قرضہ 88 ارب ڈالر سے 2017ء کی پہلی سہ ماہی میں 90 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ 2002ء سے 2018ء تک پاکستان کے غیر ملکی قرضوں میں 53 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ 2018ء میں قرض لینے کا رجحان جاری رہا عام آدمی کے لئے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ موجودہ بجٹ میں ایک کھرب 36 ارب روپیہ سود کی ادائیگی کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ ہمیں 920 ارب روپیہ سے زیادہ دفاع کے شعبہ میں صرف کرنا ہو گا۔ یہ عجیب بات ہے کہ حکومت لوگوں کی جیبوں سے پیسہ نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہیں ریلیف دینے کی بجائے ان پر معاشی بوجھ بڑھا رہی ہے۔ قرضوں کو ختم کرنے کا منصوبہ دینے کی بجائے حکومت نے منی بجٹ پیش کر دیا جس میں نئے ٹیکس لگا کر بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔
یہ امر قابل افسوس ہے کہ تمام حکومتوں نے اخراجات اور قرضوں میں کمی کی بجائے بیرون ملک سے قرضے لے کر ملک چلانے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں فی کس قرضہ بڑھ رہا ہے اور ادائیگیوں کا توازن بھی بگڑنے لگا ہے۔میں چیف جسٹس سے اپیل کروں گا کہ وہ آرٹیکل (4) 183 کے تحت اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ان معاملات کاجائزہ لیں۔
-1 ملکی معیشت کو دوسرے کے پاس گروی رکھ کر پاکستان کے عوام کی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔
-2 پاکستان کے لوگوں کو ان کی منشاء کے خلاف دوسرے ملکوں کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے۔
-3 قرض ہمارے قومی اثاثوں خاص طور پر ہمارے ایٹمی پروگرام کے لئے خطرہ کا سبب ہے۔ مزید قرضے ہمیں مزید گروی رکھ دیں گے۔ اس سنگین صورتحال پر سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ اس سارے معاملے کی چھان بین کے لئے ایک حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔
سپریم کورٹ وزارت خزانہ کو حکم دے کہ وہ عدالت عظمیٰ کو قرضوں کی واپسی یا ان سے نجات کا منصوبہ پیش کرے۔ حکومت مزید قرضے نہ لے۔ اس میں شک نہیں کہ ڈیموں کی تعمیر اور قرضے پاکستان کے مستقبل کا تعین کریں گے۔ قابل احترام عدالت نے پہلے بھی پانی کی کمی کا نوٹس لیا ہے اور قوم اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ مالی ایمرجنسی نافذ کرنے کا بھی جائزہ لے۔ مجھے یقین ہے کہ چیف جسٹس کو آئین کے آرٹیکل 38 کا علم ہے۔یہ آرٹیکل پاکستان کے عوام کی معاشی زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔
’’دی نیو کنفیشن آف این ہٹ ‘‘جان بریکنز نے اپنی کتاب میں جواعتراضات کئے ہیں یہ کتاب کمزور اور پسماندہ لوگوں کو قرضوں اور عطیات کے ذریعہ چنگل میں پھنسانے کے طریقوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔ کتاب میں عالمی بنک اور یو ایس ایڈ کے نادار اور پسماندہ ملکوں میں کردار سے پردہ اٹھایا ہے۔ آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بنک اور یو ایس ایڈ ترقی پذیر ملکوںکو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں۔ ڈیم کیلئے فنڈز اکھٹے کرنے کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ کشمیر ہائی وے کو دوبئی کے شیخ زید روڈ کی طرح کمرشل روڈ قرار دیا جائے اس سے 2000 کمرشل پلاٹ تیار ہوںگئے جنہیں بیرون ملک پاکستانیوں کو فروخت کیا جاسکتا ہے۔بیرون ملک پاکستانی موجودہ بحران کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024