اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں بھی ریاست مدینہ کا ذکر جناب وزیراعظم نے کئی مرتبہ فرمایا اور خواہش کا اظہار کیا وہ ملکت پاکستان کو ریاست مدینہ کے ماڈل پر چلانا چاہتے ہیں۔ دلوں کے احوال اللہ جانتا ہے۔ قیاساًیہ خواب وزیراعظم کے اندر کا جنون ہے‘ ان کا اخلاص ہے‘ دین سے رغبت ہے یا پھر احساس معصیت‘ جو اہل وطن کو ایسا نظام دینا چاہتے ہیں جس کی جڑیں اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے احکامات میں ہوں اور جس سے سب کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی سدھر جائے۔
ریاست مدینہ کیا ہے؟ اسکے بنیادی عوامل کیا تھے؟ یہ کن اصولوں پر قائم ہوئی؟ اور اس کا انتظام و انصرام کیسے چلایا جاتا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور صاحب ایمان کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس مقالہ میں انہی سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ کے نبیؐ اور انکے اصحاب مکہ سے ہجرت کے مدینہ منورہ 622 میں آئے اور ان کی آمد کے ساتھ ہی ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی گئی۔ دس برس تک جس کی سربراہی جناب رسالت مابؐ نے خود فرمائی۔ 632 تا 655ء پہلے تین خلفائے راشد کاعہدہے۔ حضرت علیؓ656 میں خلیفہ بنے مگر ان کا دارالخلافہ کوفہ تھا جسے آپ ریاست مدینہ کی ایکسٹینشن کہہ سکتے ہیں۔ بعد میں ملوکیت در آئی اور دنیائے اسلام میں مختلف شکلوں میں رائج رہی۔ کہیں دین کی جھلک لئے ‘ کہیں دنیاداری اور کہیں بدترین آمریت‘ بیتی صدیوں میں دنیا بھر سے مسلمانوں نے سب کچھ دیکھا بھی اور بھگتا بھی۔ پاکستان میں ریاست مدینہ کی اصطلاح کم استعمال ہوئی ہے اور اس کے مقابلہ میں اسلامی نظام‘ اسلامی ریاست اور نظام مصطفی کا تذکرہ زیادہ ہوا ہے۔ جناب عمران خان غالباً پہلے حکمران ہیں جنہوں نے ریاست مدینہ کی ترکیب استعمال کی ہے۔
ہجرت مدینہ کے بعد جناب رسالت مآب نے سب سے پہلے جانثاروں کی ایک ایسی جماعت تیار کی جنہیں اخوت‘ حریت‘ مساوات اور معاشرتی عدل کی تعلیم دی گئی تاکہ وہ ایک نظریاتی ریاست چلا سکیں۔ ریاست مدینہ کا تمام تر انتظام و انصرام دربار رسالتؐ کے تربیت یافتہ انہی لوگوں کے ذمے تھا۔ مدینہ میں آتے ہی اللہ کے نبیؐ نے سوسائٹی کی تجمیع کیلئے خصوصی اقدامات فرمائے۔ مہاجرین اور انصار کے درمیان اخوت و بھائی چارے کا رشتہ پختہ کیا۔ ایک فہرست تیار کی گئی اور ایک مہاجر کو ایک مقامی کا بھائی بنا دیا جس سے مہاجرین کو نہ صرف معاشرتی پذیرائی ملی‘ ان کے معاشی اور آبادکاری کا مسئلہ بھی وقتی طورپر حل ہو گیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مہاجرین اپنے پائوں پر کھڑے ہوتے چلے گئے۔ مگر وہ ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے کیلئے سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر۔ ریاست مدینہ کا یہ اچھوتا پہلو آج بھی معاشرہ کے دبے ہوئے لوگوں کو اٹھا سکتا ہے۔ ہر صاحب ثروت کے ذمے اس کی حیثیت کے مطابق کمزور کنبوں کی اعانت کی ذمہ داری ڈال دی جائے۔ یوں غربت کی لکیرسے نیچے کے دو کروڑ گھرانوں کی دستگیری صرف دو ملین صاحب ثروت‘ بہ آسانی کر سکیںگے۔ حدیث مبارکہ ہے کہ تمام مسلمان جسم واحد کی طرح ہیں۔ آنکھ دکھتی ہے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے اور اگر سر میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے۔ مطب یہ ہے کہ اگر مسلمان مطمئن اور سکھی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنا ہوگا۔ ریاست مدینہ جمہوری رنگ لئے ہوئے تھی۔ حکومت میں وراثت کا تصور تک نہ تھا۔ خلفائے راشدین کے بعد ریاست مدینہ کی حیثیت بدلی اور نظام بادشاہت کی طرف چلا گیا۔ حضرت معاویہؓ نے اپنے بیٹے یزید کے حق میں مہم چلائی اور انہیں ولی عہد مقرر کیا تو اہل مدینہ نے اسے صائب نہ جانا اور خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کے صاحبزادے صحابی رسولؐ عبدالرحمن نے احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا ’’یہ کیا بات ہوئی؟‘ یہ خلافت تو نہیں یہ تو بادشاہت ہے کہ بادشاہ کے مرنے پر اس کا بیٹا بادشاہ بن جائے۔‘‘ اب ذرا اپنے اردگرد دیکھ لیجئے۔ جمہوریت کے پردے میں بہت سے بادشاہوں سے ملاقات ہو جائے گی اور ہر کسی کی یہی کوشش کہ اقتدار اس کے خاندان میں ہی رہے۔
اسلامی ریاست میں مختلف عہدوں پر تقرر کا ایک معیار مقرر کیا گیا ہے۔ سورۂ نساء میں واضح احکامات موجود ہیں کہ ’’امانتیں امین اور دیانتدار لوگوں کے سپر کیا کرو۔‘‘ عہدہ اور منصب بھی ایک طرح کی امانت ہے جو بد دیانت کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ آئین پاکستان میں صادق و امین کی شق شامل کئے جانے کا مقصد بھی یہی ہے۔ اسلامی ریاست حکمران بے لوث ہوتا ہے۔وہ منصب کیلئے خود کو پیش نہیں کرتا بلکہ منصب اسے پیش کیا جاتا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے ’’خدا کی قسم ہم ریاست کے کسی عہدہ پر بھی کسی ایسے شخص کو متعین نہیں کرتے جو اس کی خواہش رکھتا ہو‘ یا اس کیلئے درخواست کرے۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جناب رسالت مابؐسے منصب کے استحقاق کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا: وہ اس کیلئے ہے جو اس سے رغبت نہ رکھتا ہو‘ اس پر ٹوٹا نہ پڑتا ہو۔ عہدہ اس کیلئے جو اس سے بچے نہ کہ اس پر جھپٹے۔ امارت کا اصل مستحق وہ ہے جسے یہ کہہ کر آمادہ کیا جائے کہ اسے قبول کر لو نہ کہ وہ جو خود کہے کہ اس پر میرا حق ہے۔‘‘ (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38