اختر حسین علوی مرحو م ، حیات و خدمات
یہ 1986 کا ذکر ہے کہ چند دوستوں کی معیت میں قافلہ سالار جدوجہد آزادی1857ء علامہ فضل حق خیر آبادیؒ کی یاد منانے کا سلسلہ شروع کیا۔ یادگاری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ پہلا جلسہ20 اگست کو یعنی برسی والے روز پاکستان نیشنل سینٹر میں ہوا۔مرحوم جوہر حسین ریزیڈنٹ ڈائریکٹر تھے ہم نے سوچا شایداجازت نہ ملے اس لئے اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق سے ملے جو ایک تقریب میں مدعو تھے سادہ کاغذ پر درخواست دی تو انہوں نے انتہائی اچھے پیرا ئے میں نہ صرف اجازت دی بلکہ اسے مستقل طور پر منانے کا مشورہ بھی دیا۔ مقررین کے ناموں کا چنائو کرنے لگے تو رکن سندھ اسمبلی حافظ محمد تقی ‘ محقق تحریک پاکستان رضوان احمد و دیگر کے ساتھ ساتھ ایک نام بھائی صلاح الدین صدیقی مر حوم نے اختر حسین علوی کا تجویز کیا۔ پہلے شناسائی نہ تھی لیکن ملاقات ہوئی تو انتہائی خوش خلق‘ ملنسار اور محبت والا پایا اور پہلی بات چیت ہی میں انہوں نے خالد لودھی‘ اسلم غزالی ‘ ارشد کھوکھر سمیت ہم سب کو اپنا گرویدہ کرلیا اور نہ صرف حسب وعدہ پاکستان نیشنل سینٹر پہنچے بلکہ اپنے تفصیلی خطاب میں تحریک آزادی، علامہ فضل حق خیرآبادیؒ ان کے فتویٰ جہاد‘جنرل بخت خان‘ رانی جھانسی اور فرنگی سامراج کا تذکرہ کیا۔ خاصی تیاری سے آئے تھے اس لئے زیادہ سنے گئے بالخصوص علامہ فضل حق خیرآباد یؒ کی جزائر انڈیمان منتقلی کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے انہیں حبس دوام بعبور د ریائے شور یعنی کالے پانی کی سزا دی گئی تھی لیکن ناز و نعم میں پلے شہزادہ علم نے وہاںمشقت جھیلی، معافی نہیں مانگی اور غلام ہندوستان میں آنے کے بجائے وہیں جان دے دی اور سپردخاک ہوئے۔
بس یہ تعارف تھا اس کے بعد ان سے بارہا ملاقاتیں ہوئیں اور ٹیلی فون پر گفتگو بھی۔ کیا خوبصورت شخصیت تھے۔ میرٹھ کے مردم خیز خطے کے ضلع ہاپڑ میں ولادت ہوئی اور کراچی میں وفات پائی۔ ڈیرہ دو دن میں ابتدائی تعلیم حاصل کی قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی تو بڑے بھائیوں کے ساتھ ایبٹ آباد پہنچے سلسلہ تعلیم جاری رکھا۔ اس دوران سماجی خدمت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بعد میں کراچی آئے توایوب دور کے بی ڈی الیکشن میں حصہ لیا اورکامیاب ہوئے اور64ء کے صدارتی الیکشن میں علی الاعلان مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی حمایت کی۔ اشتہاری دنیا میں ایس ایچ ہاشمی مرحوم کے ادارے اورینٹ سے منسلک رہے اور خوب نام کمایا۔ ساتھ ہی سیاسی و سماجی میدانوں میں بھی خدمت کا سلسلہ جاری رہا۔ فیڈرل بی ایریا یونین کمیٹی 24 کے بلامقابلہ چیئرمین بھی چنے گئے اور1983ء کے بلدیاتی الیکشن میںکامیابی حاصل کی۔ عزیز آباد اور ملحقہ علاقے میں جو ترقیاتی کام کرائے ان کو مکین آج بھی سراہتے ہیں حالانکہ کامیابی آزاد حیثیت میں حاصل کی تھی ۔پردہ پارک ،فٹبال گرائونڈ اور لائبریریاں ان کی دلچسپی کاثبوت ہیں وہ چاہتے تھے کہ علم کی روشنی پھیلے نوجوان صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لیں اور خواتین کو بھی اچھا ماحول بغرض تفریح میسر آئے۔ انہوں نے مسلم قومی موومنٹ تشکیل دی اور لسانیت‘ فرقہ واریت اور علاقائیت کے خلاف ڈٹ کر کام کیا آپ سیاسی سماجی اور فلاحی میدانوںمیں موثر کام کرتے تھے اور صرف زبانی گفتگو نہیں ،روزگار کی فراہمی ،پاکستان کے استحکام اور علاقائیت کے خاتمے کے لئے مثبت عملی جدوجہد کے قائل تھے ۔ اس د وران آپ نے خلیل احمد نینی تال والا کی معیت میں سندھ بچائو تحریک قائم کی اور صوبے کے مسائل و مشکلات کے حل میں سینہ سپررہے یہ وہ دور تھا جب سندھ میں لسانی علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصبات عروج پرتھے آپ نے 74 برس کی عمر میں وفات پائی۔ آج قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے پاکستان کو پھر داخلی اور خارجی دشمنوں کا سامنا ہے جواس کی سلامتی کے درپے ہیں تو تحریک پاکستان کے اکابرین یاد آتے ہیںجنہوں نے انگریز‘ ہندو اور کانگریس نواز جمعیت علمائے ہنداور احرار و دیگر کو شکست دیکر پاکستان حاصل کیا تھا۔ اختر علوی مرحوم کی برسی پر ان کی باتیں یاد آتی ہیںجب وہ نئی نسل کو پاکستان کے استحکام کے لئے جدوجہد کی تلقین کرتے تھے سچ یہ ہے کہ اب تو ایسی باتیں کرنے اور جوش جذبہ یا ولولہ پیدا کرنے والے بھی خال خال رہ گئے ہیں حالانکہ پاکستان کو ایسی شخصیات کی اشد ضرورت ہے۔