اپوزیشن کوپی ٹی آئی میں فرشتوں کی تلاش
ابھی عمران خان کی حکومت کو ایک ہی ماہ گزرا ہے کہ جمہوری دنیا میں مروجہ حکومت کے سو دن پورے ہونے سے پہلے ہی اپوزیشن نے پی ٹی آئی میں فرشتے تلاش کرنے شروع کر دییئے ہیں۔ سو دنوں کی کارکردگی میں جدید جمہوری حکومت کی سمت کا پتہ چل جاتا ہے۔عوام کی نظروں میں تو حکومت کے اقدام کی سمت معلوم ہو گئی ہے مگر اپوزیشن کی نظر یں ابھی بند ہیں ۔ لگتا ہے کہ اپوزیشن صرف مخالفت برائے مخالفت پر ابھی سے اتر آئی ہے۔ عمران خان کی ٹیم کو دیکھ کر نون لیگ کی ترجمان عمران خان کو کہہ رہی ہیں کہ استعفیٰ دیں۔ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ کیا نون لیگ میں فرشتے تھے تو جواب یقیناً صفر ہو گا۔ ہمارا سیاسی نظام بلکہ پورا معاشرہ ہی برائیوں میں مبتلا ہے۔ سیاست دانوں نے سیاست کو ایک انڈسٹری سمجھ لیا ہے،کروڑ لگائو اور جیتنے کے بعد اربوں کمائو والی بات ہے۔ عوام دیکھ رہے ہیں کہ سیاست دان زیرو سے ہیرو بن جاتے ہیںمگر عوام ان خلاف کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ اقتدار سیاست دانوں کے پاس ہوتا ہے۔ وہ عوام کی ضرورت کے تحت قانون سازی کے بجائے پہلے اپنے مفادات کی قانون سازی کرتے ہیں نہ پاکستان میں ایسے اسپتال بناتے ہیں جن میں ان کا علاج بھی ہو۔ وہ اور ان کے بچے بیرون ملک اسپتالوں میں علاج کرواتے ہیں اور غریب عوام اور ان کے بچوں کو پاکستان کے اسپتالوں میں دوائیاں تک نہیں ملتیں۔ ان کے بچے بیرون ملک تجارت کرتے ہیںاوربیرون ملک ہی رہتے ہیں اگر سیاسی نظام کی بات کی جائے توپارلیمنٹ میں سیاست دان کیوں نہیں ایسا خود مختارالیکشن کمیشن بناتے جس پر تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد ہو۔ الیکشن کے بعد ایک دوسرے پر الزام لگانے کے بجائے الیکشن جیتنے والی پارٹی کو ملکی مفاد میں کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ ہمارے ملک میں جب بھی الیکشن ہوتے ہیں ہارنے والی پارٹیاں جیتنے والی سیاسی پارٹی پر الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہیں۔عمران خان نے2013ء کے الیکشن کے بعد نواز حکومت کا سارے دورانیئے میں ناک میں دم کیئے رکھا جس کی وجہ سے ترقی کا پہیہ رکا رہا۔ اب نون لیگ والے پی ٹی آئی میں فرشتے تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ناک میں دم کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں۔ ملکی ترقی، حکومتی معاملات چلانے، غریبوں کی مشکلات دور کرنے،خارجہ پالیسی کو صحیح سمت میں لگانے، دہشت گردی کو ختم کرنے ،مہنگائی پر کنٹرول کرنے ،بیرونی قرضوں سے جان چھڑانے کے بجائے دھاندلی دھاندلی کی صدائیاں آنے لگی ہیں۔ اس سے قبل توایک دوسرے کے ملکی مفاد میں شروع کیئے گئے ترقیاتی پروجیکٹ کو بدلنے کی بھی حماقتیں کی جاتی رہیں جس میں صرف عوام کا نقصان ہوتا رہا۔ملکی قرضوں کی بات کی جائے تو ڈکٹیٹر کے دور میں چھ(۶) ارب قرضے تھے، زرداری حکومت میں اٹھارا(۱۸) ارب اور نون لیگ کی حکومت نے اسے اٹھائیس(۲۸)ارب تک پہنچا دیا۔ اب ملک کا ہر شہری سود خور اداروں کا ایک لاکھ پچاس ہزار کا مقروض بنا دیا گیا ہے۔پی ٹی آئی حکومت کے وزیر اطلاعات کے مطابق زیر مبادلہ کے ذخائر ایک ماہ اور کچھ دن کے رہ گئے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اقتدار میں آنے سے پہلے عمران خان نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ بندہ خود کشی کر لے۔ اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ملائیشیا کے موجودہ سربراہ کی بات سو فی صد درست ہے جو انہوںنے آئی ایم ایف کے قرضوں پر تنقید کرتے ہوئے کہی تھی کہ جس ملک کو برباد کرنا ہو اسے آئی ایم ایف کے حوالے کر دیں یہ بات سو فیصدصحیح ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضوں سے کسی بھی ملک نے ترقی نہیں کی بلکہ آئی ایم ایف کو چلانے والے ان قرضوں کے ہتھیاروں سے غریب ملکوں کی حکومتوں کو تبدیل کرنے کی چالیں چلتے رہے ہیں۔اب عمران خان مجبوری میں آئی ایم ایف جارہے ہیں تو آئی ایم ایف کی شرطوں کی وجہ سے مہنگائی ایک دم جمپ کرے گی جس سے ملک میں ترقی کی شرح بڑھنے کی بجائے نیچے جائے گی، غریب عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھے گا، محنت کرنے کی کارکردگی پر منفی اثر پڑے گا جس سے ملک پروڈکشن سست پڑ جائے گی مگر ا پوزیشن اس پر دھیان نہیں دے رہی۔بگڑے ہوئے ملکی حالت کو درست کرنے کی عمران خان نے کوششیں توشروع کر دی ہیں۔ اپوزیشن مخالفت برائے مخالفت کے بجائے ملکی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پر جائز تنقید تو ضرور کرے مگر جس سے ملک کا نقصان ہوتا ہے اس سے اجتناب برتے۔پارلیمنٹ میں سابق حزب اختلاف لیڈر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما نے اچھا اور ملکی مفادات میں بیان دیا ہے کہ اس موقع پر حکومت پر تنقید کرنے اس کو گرانے سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ اس حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں۔ یہ صحیح بات ہے اپوزیشن کو سڑکوں پر آنے اور ملک کا نظام ڈسٹرب کرنے کے بجائے مہذب جمہوری ملکوں کی طرح پارلیمنٹ کے اندر تنقید کریں۔ملک کے مفاد کے کاموں میں تعاون کریں۔ پارلیمنٹ میں بحث مباحثے کر کے، حکومت کے جن اقدام سے ملک کو نقصان پہنچنے کاخطرہ ہو اس کی مخالفت کریں۔ حکومت کے جو اقدام ملک کی حمایت میں ہیںان میں تعاون کریں۔ مذہب جمہوری ملکوں کی تو یہی پالیسیاں ہیں۔ اگر ہمارے ملک کے سیاست دان ان پر چل کر دکھائیں تو یہ ملک ترقی کے زینے چڑھتا جائے گا۔عوام خوش حال ہوںگے، مہنگائی ختم ہو جائے گی، دہشت گردی ختم ہو گی، ملک میں امن و امان ہو گا، عوام یک جان ہو جائیں گے، دشمن کو ہماری طرف دیکھنے سے پہلے سو دفعہ سوچنا ہوگا۔ اپوزیشن کو چاہیئے کہ عمران خان کے اردگردفرشتے تلاش کرنے کے بجائے حکومت کے پہلے سود ن پورے ہونے دیں پھر تنقید کا حق استعمال کریں۔