12 اکتوبر1999ءکو پرویز مشرف نے آئین اور قانون توڑا تھا پرویزمشرف نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ ایسا اس ملک کی بہتری کےلئے کیا تھا یا ایسا سہولت کار کے طور پر کیا تھا یا ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ ماضی میں ایسا ہی رول جنرل ضیاءبھی ادا کر چکے تھے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر شہری کے دماغ اور زبان پر ہیں۔ نوازشریف کو تیسری بار مدت پوری کرنے نہیں دی گئی جس سے ملک ایک بار پھر سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہے۔ ورلڈ بینک نے پاکستان کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اس وقت ملک بہت بڑے معاشی اور سیاسی بحران کی طرف جا رہا ہے تو غلط نہ ہوگا‘ سیاسی بے یقینی میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے‘ بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی صورتحال پر فوکس کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم یہ باتیں کس سے کررہے ہیں۔ سوائے اﷲ کے کوئی ہے جو دیکھ رہا ہے‘ سن رہا ہے کہ کیا ہونے جارہا ہے اورکیا ہوگا۔ ایسے ہی حالات کبھی فیض احمد فیض کے زمانے میں بھی ہوا کرتے تھے۔ فیض صاحب ایک شام اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ایسے میں ملکی حالات پر تبصرے ہورہے تھے۔کسی نے کہا آنے والے دنوں میں یہاں خون خرابہ ہوگا‘ کسی نے کہا ملک مزید تقسیم ہوگا۔ اس طرح کسی نے کہا مجھے لگتا ہے مارشل لاءلگے گا۔ ایسے میں فیض صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ یہاں کیا ہونے جا رہا ہے۔ فیض صاحب نے کہا بھائیو اس سے بھی بُرا ہوگا۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے، پریشان بھی کہ اس سے اور بُرا کیا ہوسکتا ہے۔ لہذا سب نے یک زبان ہوکر فیض صاحب سے کہا ہم سمجھے نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں جس پر فیض صاحب نے کہا کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں حکومتیں جس طرح سے گرائی جاتی رہی ہیں یا حکمرانوں کو گھر بھیجا جاتا ہے یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ یوں تو قانون بھی ہے اور آئین بھی ہے اس کے باوجود غیرآئینی غیرقانونی طریقے سے اقتدار میں آتے جاتے رہتے ہیں ابھی تک کسی کو ایسا کرنے کی سزا نہیں ملی۔ پہلی بار پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کا مقدمہ چلا مگر انجام تک نہ پہنچ سکا۔ ایسے واقعات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں آئین کا نہ قانون کا احترام کیا جاتا ہے کیا پرویز مشرف کو ایسا کرنا چاہئے تھا؟ کیا مشرف کو آئین یا قانون ایسا کرنے کی اجازت دیتا تھا؟ یہ بات کل ایک ٹریفک سگنل پر لفٹ لینے والے ایک بزرگ نے کہی۔ کہا تیسری بار جس طرح سے نوازشریف کے اقتدار کی مدت پوری نہیں ہونے دی گئی اس سے اب عیاں ہوچکا ہے کہ بات پانامہ اور کرپشن کی نہیں تھی اصل کہانی کچھ اور ہے۔ کہا اگر نوازشریف کی جگہ کوئی بھی ہوتا اور سی پیک پر دستخط کرتا تو اسے بھی اسی طرح گھر بھیج دیا جاتا۔ ماضی میں بھی حکمرانوں کو بلاجواز گھر بھیجا جاتا رہا ہے۔ غیرآئینی‘ غیرقانونی انداز سے گھر بھیجنے کا سلسلہ ستر سال سے اب بھی جاری ہے کسی کو نہیں معلوم کہ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا ؟ لہٰذا نواز شریف کے گھر جانے سے کسی کو کوئی حیران یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں جب بھی حکمران بدلا یا حکومت بدلی‘ ووٹوں سے نہیں سہولت کاروں سے بدلی گئی۔ آج کے روز پرویز مشرف نے نوازشریف کو قید کیا اور خود اقتدار کی کرسی پر تھے یہاں بھی پرویز مشرف ایک سہولت کار کے طور پر سامنے آئے۔ ایک طویل عرصے تک اقتدار میں رہے لیکن جب انہی قوتوں نے دیکھا کہ اب ان کی ضرورت نہیں رہی تو مشرف کو مارا نہیں لیکن گھسیٹ کر نکالا ضرور۔ اس وقت مشرف وردی میں بھی بے بس دکھائی دیئے‘ رخصت کے وقت پرویز مشرف سب کچھ اسی طرح سمجھ رہے تھے جس طرح کسی زمانے میں بھٹو‘ ضیاءاور آج نوازشریف سمجھ رہا ہے کہ مجھے کیوں نکالا؟ حکمران رخصت ہونے سے قبل سازش سازش کا شور مچاتے رہتے ہیں مگر سازشیوں کے نام نہیں لیتے۔ کہا حکمرانوں کو گھر بھیجنے کا ڈرامہ ایک دن میں نہیں بنتا۔ اس کےلئے کئی ماہ قبل سٹوری لکھی جاتی ہے پھر اداکار منتخب کئے جاتے ہیں‘ انہیں ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں‘ پیسے دیئے جاتے ہیں‘ سین سمجھائے جاتے ہیں یعنی وہ کچھ ہوتا ہے جو کسی فلم کو بنانے کےلئے کیا جاتا ہے۔ کہا اس وقت عمران خان‘طاہر القادری‘ شیخ رشید سہولت کار کا رول ادا کر رہے ہیں۔ عمران ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھی رہا ہے۔ یہ سیاست دان نہیں سہولت کار ہیں جیسے ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کے خاتمے کےلئے سہولت کار کا رول ضیاالحق نے ادا کیا تھا۔ ضیاالحق نے بھٹو کو راستے سے ہٹانے کےلئے عدلیہ سہولت کار بنی تھی۔ سب جانتے ہیں بھٹو کو پھانسی سپریم کورٹ نے پریشر میں دی تھی۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ کسی بے گناہ کو پھانسی بھی دی جاسکتی ہے۔ جج بھی پریشر میں غلط فیصلے کرسکتا ہے، جوں جوں سوچ رہا تھا دل ڈوبا جا رہا تھا ۔ بزرگ نے کار سے اترتے ہوئے کہا جب تک سیاسی پارٹیوں اور اداروں میں سہولت کار رہیں گے یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024