اگر یہ کہا جائے کہ شہر کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے انجن کی حیثیت رکھتے ہیں تو پھر انفراسٹرکچر وہ ایندھن ہے جس کے بغیر یہ انجن چل ہی نہیں سکتا۔ انفراسٹرکچر کی ترقی سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے اور مسائل کم ہوتے ہیں، یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دیتا ہے، تجارتی اشیاء کی تیز ترین آمد و رفت کو یقینی بناتا ہے جس سے تاجروں کے قیمتی سرمائے اور وقت کی بچت ہوتی ہے۔ اگر انفرا سٹرکچر کو ترقی دینے سے حاصل ہونے والے مجموعی معاشی فوائد کی بات کی جائے تو یہ بیان سے باہر ہیں۔ اس کے باوجود ماضی میں انفرا سٹرکچر پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی جس کا ہمیں بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا لیکن صوبہ پنجاب کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے دو مرتبہ میاں شہباز شریف جیسے وزیر اعلیٰ کی خدمات میسر آئیں جن کی اوّلین ترجیحات میں انفرا سٹرکچر ڈویلپمنٹ ہمیشہ شامل رہا ہے۔ ہماری اْن سے وابستگی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ 1985ء میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈسٹری کے صدر رہ چکے ہیں لہٰذا وہ ملک و قومی ترقی و خوشحالی کے لیے جو خدمات سرانجام دیتے ہیں اُن پر ہمیں بھی فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ انسان کی عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ اْس کا جوش و جذبہ سرد ہوتا جاتا ہے لیکن بڑی حیرت کی بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ شہباز شریف کا جوش و جذبہ سرد پڑنے کے بجائے مزید بڑھتا جا رہا ہے اور وہ نِت نئے کارنامے سرانجام دیتے جا رہے ہیں۔ لاہور میں میٹرو بس پراجیکٹ ہی کو لے لیں، گجومتہ سے شاہدرہ تک 27 کلومیٹر طویل یہ منصوبہ صرف ایک سال کی قلیل مدت میں مکمل ہوا جبکہ دوسرے صوبوں میں چھوٹے چھوٹے اوور ہیڈ برج تک کئی کئی سال گزرنے کے باوجود مکمل نہیں کیے جا سکے۔ اس منصوبے سے روزانہ تقریباً 180,000 افراد مستفید ہوتے ہیں۔ راولپنڈی میں بھی یہ منصوبہ شاید تکمیل کے نزدیک ہوتا لیکن دھرنوں اور انتشار کی سیاست نے اس اہم ترقیاتی منصوبے کا راستہ روک دیا تاہم امید ہے کہ یہ جلد مکمل ہو کر فیصل آباد اور ملتان میں بھی ایسے منصوبوں کی راہ ہموار کرے گا اور لاہور کی طرح وہاں بھی نہ صرف ٹریفک کے مسائل حل ہونگے بلکہ عوام کو سستی ٹرانسپورٹ بھی میسر آئے گی۔ اسی طرح نندی پور پاور پراجیکٹ، جو سابق حکومت کی وجہ سے سرد خانے میں پڑا تھا، انتہائی ریکارڈ وقت میں مکمل کیا گیا۔ پنجاب میں توانائی کی پیداوار کے بہت سے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے جبکہ صوبے میں انڈسٹریل اسٹیٹس کی ترقی کے لیے بھی انہوں نے گرانقدر اقدامات اٹھائے، البتہ کٹار بند روڈ انڈسٹریل اسٹیٹ تاحال اُن کی نظر کرم کی منتظر ہے جہاں فارما سیوٹیکل، فوڈ پیکیجنگ، آٹو موبیل اور ٹیکسٹائل سمیت ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈیڑھ سو سے زائد بڑے یونٹس واقع ہیں، اس کے باوجود یہ علاقہ کسی پسماندہ ترین گائوں کا منظر پیش کرتا ہے جہاں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ سڑکوں کی جگہ کچے راستے ہیں جن پر کئی کئی فٹ گہرے گڑھے بنے ہیں، نکاسی آب کا کوئی نظام نہیں، لوڈشیڈنگ عروج پر ہے جبکہ امن و امان کے حالات بھی ناگفتہ بہ ہیں۔ یہاں آنے والے غیر ملکی خریدار کوئی اچھا تاثر لیکر واپس نہیں جاتے لہذا اگر میاں شہباز شریف کٹار بند روڈ انڈسٹریل ایریا کو انڈسٹریل اسٹیٹ کا درجہ دیکر یہاں بھی انفراسٹرکچر بہتر بنائیں تو اس علاقے کے صنعتکار بھی ذہنی سکون کے ساتھ قومی خدمت کر سکیں گے ، صنعت سازی کو وسعت ملے گی، روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے اور حکومت کے محاصل بھی بڑھیں گے۔ شہباز شریف کا ایک اور بہت اہم کارنامہ صرف ایک سال کی قلیل مدت میں ڈینگی جیسی مہلک بیماری کا 90%سے زائد خاتمہ کر دینا ہے جس نے کئی دہائیوں سے سری لنکا اور برازیل سمیت کئی ممالک کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ آج کل وہ بیک وقت ذاتی طور پر انسداد ڈینگی اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے سرگرمِ عمل ہیں حالانکہ ملک پر ایسے لیڈرز بھی مسلط ہیں جو اُس ڈانس فرما رہے تھے جب لوگ بدترین سیلاب میں گھرے تھے اور اُن کے اپنے صوبے کے لوگ مررہے تھے۔ میاں محمد شہباز شریف نے اقرباء پرستی، سفارش اور گھوسٹ سکولوں کے خاتمے، روڈ نیٹ ورک اور انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وہ ایک بہترین ایڈمنسٹر اور معاملات کو بہتر کرنے کی بھرپور صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ بلاجواز تنقید کرنے والوں کو نظر انداز کر کے ترقی کا یہ عمل نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ اس کا دائرہ کار صوبے کے تمام شہروں تک پھیلائیں گے۔ چونکہ میرا تعلق کٹار بند روڈ انڈسٹریل ایریا سے ہے لہٰذا میں یہ بھی توقع کرتا ہوں کہ یہ اہم صنعتی علاقہ اْن کے ترقیاتی ویژن سے زیادہ دیر محروم نہیں رہے گا اور جلد ہی اسے انڈسٹریل اسٹیٹ کا درجہ دیکر ایک رول ماڈل بنایا جائے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024