ملالہ یوسف زئی پاکستان کی بہادر اور قابلِ فخر بیٹی ہے۔معزز اور باوقار قوم اپنی بیٹیوں کی جان اور ان کی عزت و ناموس کی محافظ ہوتی ہےجنہوں نے ملالہ پر حملہ کر کے اس کی جان لینے کی کوشش کی ان کا نہ تو اسلام سے کوئی واسطہ ہے اور نہ اس قوم سے تعلق ہے جس کی بیٹی پر انہوں نے بزدلانہ حملہ کیا۔اسلامی جہاد کے بڑے واضح احکامات ہیں کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ ان لوگوں کو بھی نشانہ نہیں بنایا جا سکتا جو لڑائی میں عملاً شریک نہ ہوں۔نبی اکرم ﷺ کی ہمیشہ یہ خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ گردنیں جھکانے اور کاٹنے کے بجائے لوگوں کے دلوں کو فتح کیا جائے اور ذہنوں کو اسلام کی حقانیت پر قائل کیا جائے۔جن لوگوں نے ملالہ اور اس کی ساتھی دیگر کچھ بچیوں پر گولیاں برسائیں۔ انہوں نے ایک گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کیا ہے جو غیر اسلامی، وحشیانہ اور سرا سر درندگی ہے۔کوئی عالم و فقیہہ اور کوئی معقول اور مہذب آدمی ان کے اس فعل کو سندِ جواز نہیں بخش سکتا۔ہماری نگاہ میںیہ فعل اس لیے برا نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور امریکہ کے صدر نے اس کی مذمت کی ہے، بلکہ یہ اس لیے برا ہے کہ یہ اسلام کی تعلیمات کی رو سے بُرا ہے۔
ملالہ یوسف زئی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جرا¿ت مند ی،تعلیم سے محبت اور جبر و تشدد اور دہشت گردی سے نفرت کی علامت بن گئی ہے۔ وہ جہالت کی تاریکیوں سے لڑ کر اپنے علاقے کی ساری بچیوں کو زیورِ علم سے آراستہ دیکھنے کی متمنّی ہے۔وہ اپنے ماحول میں رائج اس دقیانوسی سوچ کو بدلنا چاہتی ہے کہ عورتوں کے لیے تعلیم ضروری نہیں ہے۔اس سوچ کا پرچار کرنے والے جس طرح جہاد کی حقیقت سے نا آشنا ہیں اسی طرح وہ علم پر صرف مردوں کی اجارہ داری کا تصور منوا کر اپنی ناقص فکر کو غالب رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ملالہ کو اپنی روایات کی باغی سمجھ کر اس کی جان کے دشمن بن گئے ہیں۔جو لوگ اس سوچ کو صرف مولویوں سے منسوب کر کے دینِ اسلام پر طعنہ زنی کے مواقع تلاش کرتے ہیں وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس علاقے میں پڑھے لکھے سیاست دان بھی اسی سوچ کے حامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے موقع پر سیاست کے میدان میں ایک دوسرے کے حریف ایک نکتے پر متفق ہوتے ہیں کہ عورتوں کو ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں پر نہیں جانے دیا جائے گا۔ اس علاقے کی جاہلانہ قبائلی روایات کو اسلام کے ساتھ اس طرح گڈ مڈ کر دیا گیا ہے کہ جو چیز یں قرآن و سنت سے ثابت نہیں مگر قبائل روایات میں راسخ ہیں ان کو اسلامی روایات باور کرایا جاتا ہے۔یوں گویا علمِ حقیقی سے نابلد، تعلیمِ نسواں کے مخالف اور مقامی روایات کے علمبردار عناصر ملالہ کے خون کے پیاسے ہو گئے۔
لیکن ایک اور حقیقت جو زبردست پروپیگنڈے کے غبار میں چھپی ہوئی ہے وہ ملالہ یوسف زئی کے ایک اور دشمن کا چہرا سامنے نہیں آنے دے رہی ہے۔ہمارے ملک میں سرگرم امریکہ اور مغربی ممالک کی وظیفہ خوار این جی اوز ، لِبرل فاشسٹ طبقہ، تجدد پرست اور مغرب زدہ دانشور ، صحافی اور اینکر پرسنز بھی ملالہ کے دشمن ہیں ۔وہ ملالہ کو ایک ایسی حیثیت میں اپنے طور پر متعارف کرانے کی مکروہ کوشش کر رہے ہیں جس کا ملالہ نے یا اس کے خاندان نے کبھی دعویٰ نہیں کیا ہے۔وہ ملالہ کو اسلامی روایات اور اصول کے مقابلے میں بے لگام آزادی اور مغربیت کی نمائندہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ملالہ کی علم و تعلیم سے محبت گویامغربیت سے محبت کے مترادف ہے۔ملالہ دہشت گردی کا نشانہ بننے والی پہلی بچی نہیں ہے۔ اسی دیر اور سوات کے علاقے میں مسمار کیے جانے والے متعدد اسکولوں کی حیا دار اور اسلامی اقدار کی پابند استانیاں بھی اس ظلم کا ہدف بن چکی ہیں۔بہت سی معصوم اور کم عمر بچیاں دہشت گردانہ کارروائیوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ ڈرون حملوں میں اسی عمر کی پھول سی بچیوں بچوں اور خواتین کے جسموں کے پرخچے اڑ جاتے ہیں۔خود پاکستانی فورسز جب دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدام کرتی ہیں تو اس میں بھی خواتین اور بچوں کی جانیں جاتی ہیں۔لیکن ان این جی اوز، سول سوسائٹی کی ماڈرن کرتا دھرتا عورتوں ، دانشوروں،کالم نگاروں اور ٹی وی اینکرز نے کبھی کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ملالہ کو چونکہ ایک خاص سوچ اور ایک خاص کلچر کی نمائندہ ثابت کرنا مقصود ہے اس لیے اس پر ہونے والے بزدلانہ حملے پر شور مچا کر لبرل قوتیں در اصل اپنے مقاصد پورا کرنا چاہتی ہیں۔یہ قوتیں ملالہ کی خیر خواہ ہر گز نہیں ہیں۔یہ اس کی اتنی ہی بڑی دشمن ہیں جتنے بڑے دشمن وہ دہشت گرد ہیں جنہوں نے ملالہ پر حملہ کر کے اس کی جان لینے کی کوشش کی۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024