رفیق غوری ۔۔
وہ وقت بھی ہوتا تھا جب قرارداد پیش ہوتی، منظور ہوتی، تو پھر قوم کی اس سے رہنمائی ہو جایا کرتی تھی۔ قرارداد لاہور بھی تو ایک قرارداد تھی جسے قرارداد پاکستان کہا گیا اور قرار دیا گیا کہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔ پھر قرارداد پاکستان پر عمل کرتے ہوئے پاکستان بن گیا۔ قرارداد پاکستان کے منظور ہونے کے سات سال بعد آزادی کا تحفہ مل گیا۔ قرارداد پاکستان کی روشنی میں ہی پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد قرارداد مقاصد پیش اور منظور ہوئی۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا اس قرارداد مقاصد کو آئین پاکستان کا دیباچہ تسلیم کر لیا گیا پھر تو ہر تنظیم، ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت نے اپنے چھوٹے بڑے اجتماعات میں قراردادیں پیش کرنا، منظور کرنا شروع کر دیں۔ اب ایک اور قرارداد پیش اور منظور کی گئی اراکین اسمبلی ایک ہو گئے۔ متحد ہو گئے مگر کچھ قوتوں کو اس قرارداد کے پیش ہونے، منظور ہونے کے بعد مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ایسے لوگ اس قرارداد پر اعتراضات کر رہے ہیں۔ اس قرارداد کو ضرورت قرار دینے کے موقع پر ہماری حالت کیا ہے کہ سیلاب سے پوری قوم متاثر ہو چکی ہے۔ دنیا جہاں میں اس سے ہم بیگر Begger بن چکے ہیں کہ کوئی ہم حرماں نصیبوں، ضرورتمندوں کی مدد کر دے۔ کل کے خوشحال آج کے بدحال کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس قرارداد کے موقع پر محترمہ فوزیہ وہاب اور منتخب وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے بھی قرارداد کے احترام کی بات کی ہے مگر کچھ لوگ آج بھی میں نا مانوں، میں ناماتوں کی رٹ لگا رہے ہیں حالانکہ وہ سارے جانتے ہیں کہ آج کے دور میں ڈیم کی کتنی ضرورت ہے؟ اور یہ بھی کہ اگر کالا باغ ڈیم پہلے بن چکا ہوتا تو شاید اس طرح کا سیلاب نہ آتا اس قرارداد میں کالا باغ ڈیم کو قومی ضرورت قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس ڈیم کی تعمیر کیلئے چاروں صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرے۔ یہ قرارداد پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری ظہیرالدین کی طرف سے پیش کی گئی۔جس میں اعتراف کیا گیا کہ کالاباغ ڈیم قابل تعمیر منصوبہ ہے۔ قراداد کے تحرک نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ وہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے دیگر صوبوں کے آگے ہاتھ جوڑنے کو بھی تیار ہے۔ حالیہ سیلاب میں نوشہرہ شہر اور اسکے گردونواح کے علاقوں کے سیلاب میں ڈوبنے کے بعد کالاباغ ڈیم کی اہمیت اور ضرورت اور بھی اجاگر ہو گئی ہے۔ واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک جو نوشہرہ کے ہی رہنے والے ہیں۔ وہ بھی ڈیم کے حامی ہیں ریکارڈ پر ہے کہ کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کر کے چھ ارب روپے سے زائد کی لاگت سے اس کی تعمیر کے ابتدائی مراحل بھی طے کئے جا چکے ہیں۔ان حالات میں انکار کرنے والے کیوں اقرار نہیں کر رہے ہیں۔ اس پر زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے خنجر سے اپنے آپ پر وار کرتے کرتے خود کشی کی طرف بڑھ چکے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جھوٹی ضدوں اور انائوں کے خول سے باہر نکل کر ایک مشترکہ قرار داد پر عمل کر کے اس جذبہ سے اختلاف کرنے والوں کو قائل کر لیا جائے۔ ہم تو سیلاب کے فوراً بعد انہی سطور میں پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ شہر نوشہرہ کالاباغ ڈیم کے نہ بننے کے باوجود بھی ڈوب چکا ہے۔ تباہ ہو چکا ہے۔ اس لئے پی ٹی وی کے ایک ڈرامہ وارث کی طرح کے جو کردار آج بھی انکار کر رہے ہیں۔ انہیں بھی ڈوبنے سے پہلے احساس کر ہی لینا چاہئے۔ کہ بدر منیر کا اعتراف نہ کرنا بوجہلی اور بولہبی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا اور ایسے لوگوں کا انجام بھی تاخیر اور تاریخ میں اچھا نہیں بتایا گیا۔
وہ وقت بھی ہوتا تھا جب قرارداد پیش ہوتی، منظور ہوتی، تو پھر قوم کی اس سے رہنمائی ہو جایا کرتی تھی۔ قرارداد لاہور بھی تو ایک قرارداد تھی جسے قرارداد پاکستان کہا گیا اور قرار دیا گیا کہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان‘‘۔ پھر قرارداد پاکستان پر عمل کرتے ہوئے پاکستان بن گیا۔ قرارداد پاکستان کے منظور ہونے کے سات سال بعد آزادی کا تحفہ مل گیا۔ قرارداد پاکستان کی روشنی میں ہی پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد قرارداد مقاصد پیش اور منظور ہوئی۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا اس قرارداد مقاصد کو آئین پاکستان کا دیباچہ تسلیم کر لیا گیا پھر تو ہر تنظیم، ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت نے اپنے چھوٹے بڑے اجتماعات میں قراردادیں پیش کرنا، منظور کرنا شروع کر دیں۔ اب ایک اور قرارداد پیش اور منظور کی گئی اراکین اسمبلی ایک ہو گئے۔ متحد ہو گئے مگر کچھ قوتوں کو اس قرارداد کے پیش ہونے، منظور ہونے کے بعد مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ ایسے لوگ اس قرارداد پر اعتراضات کر رہے ہیں۔ اس قرارداد کو ضرورت قرار دینے کے موقع پر ہماری حالت کیا ہے کہ سیلاب سے پوری قوم متاثر ہو چکی ہے۔ دنیا جہاں میں اس سے ہم بیگر Begger بن چکے ہیں کہ کوئی ہم حرماں نصیبوں، ضرورتمندوں کی مدد کر دے۔ کل کے خوشحال آج کے بدحال کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس قرارداد کے موقع پر محترمہ فوزیہ وہاب اور منتخب وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے بھی قرارداد کے احترام کی بات کی ہے مگر کچھ لوگ آج بھی میں نا مانوں، میں ناماتوں کی رٹ لگا رہے ہیں حالانکہ وہ سارے جانتے ہیں کہ آج کے دور میں ڈیم کی کتنی ضرورت ہے؟ اور یہ بھی کہ اگر کالا باغ ڈیم پہلے بن چکا ہوتا تو شاید اس طرح کا سیلاب نہ آتا اس قرارداد میں کالا باغ ڈیم کو قومی ضرورت قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس ڈیم کی تعمیر کیلئے چاروں صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرے۔ یہ قرارداد پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری ظہیرالدین کی طرف سے پیش کی گئی۔جس میں اعتراف کیا گیا کہ کالاباغ ڈیم قابل تعمیر منصوبہ ہے۔ قراداد کے تحرک نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ وہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے دیگر صوبوں کے آگے ہاتھ جوڑنے کو بھی تیار ہے۔ حالیہ سیلاب میں نوشہرہ شہر اور اسکے گردونواح کے علاقوں کے سیلاب میں ڈوبنے کے بعد کالاباغ ڈیم کی اہمیت اور ضرورت اور بھی اجاگر ہو گئی ہے۔ واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک جو نوشہرہ کے ہی رہنے والے ہیں۔ وہ بھی ڈیم کے حامی ہیں ریکارڈ پر ہے کہ کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کر کے چھ ارب روپے سے زائد کی لاگت سے اس کی تعمیر کے ابتدائی مراحل بھی طے کئے جا چکے ہیں۔ان حالات میں انکار کرنے والے کیوں اقرار نہیں کر رہے ہیں۔ اس پر زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ اپنے خنجر سے اپنے آپ پر وار کرتے کرتے خود کشی کی طرف بڑھ چکے ہیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جھوٹی ضدوں اور انائوں کے خول سے باہر نکل کر ایک مشترکہ قرار داد پر عمل کر کے اس جذبہ سے اختلاف کرنے والوں کو قائل کر لیا جائے۔ ہم تو سیلاب کے فوراً بعد انہی سطور میں پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ شہر نوشہرہ کالاباغ ڈیم کے نہ بننے کے باوجود بھی ڈوب چکا ہے۔ تباہ ہو چکا ہے۔ اس لئے پی ٹی وی کے ایک ڈرامہ وارث کی طرح کے جو کردار آج بھی انکار کر رہے ہیں۔ انہیں بھی ڈوبنے سے پہلے احساس کر ہی لینا چاہئے۔ کہ بدر منیر کا اعتراف نہ کرنا بوجہلی اور بولہبی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا اور ایسے لوگوں کا انجام بھی تاخیر اور تاریخ میں اچھا نہیں بتایا گیا۔