نوازخان میرانی ۔۔۔
اسلام میں مُثبت انداز میں اپنے خیالات کے اظہار کی گنجائش بہرکیف موجود ہے۔ مگر اسے وطیرہ بنانا اور اپنے موقف میں کوئی تبدیلی لائے بغیر دلائل و فضائل سے آگہی کے باوجود ڈٹ جانا مناسب نہیں کیونکہ اس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر اصلاح کا پہلو پس منظر میں چلا جاتا ہے اور پھر لایعنی بحث و مباحثہ میں قیمتی وقت ضائع ہونے کا دروازہ وَا ہو جاتا ہے۔پچھلے دنوں لفظ مجدد نعت پہ علمی آراء کا اظہار سامنے آیا، ہمارے دین میں جتنی آزادی اظہار و افکار ہے۔ دنیا کے کسی دیگر مذہب میں موجود نہیں۔ حتیٰ کہ آقائے دو جہاں، سرکار دو عالمؐ کو بھی ایک باندی نے بصد اکریم یہ جواب دیا تھا کہ میری جان آپ پہ قربان، حضورؐ اگر تو یہ آپؐ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر، مجھے منظور ہے، اور اگر یہ مشورہ ہے، تو مجھے اس میں اختلاف ہے۔ یہ سُنکر سرکار کائناتؐ نے نہ تو بُرا مانا۔ نہ اُن کے رویے میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی اُنہوں نے اِس جواب میں خفگی کے ردِعمل کا تاثر دیا اور معمول کے مطابق اس سے سلوک فرمایا۔ حضرت حَسانؓ کا مقام نعت گوئی، اور تعریف و توصیف محمد عربیﷺ پہ سند کا مقام رَکھتا ہے۔ جہاں اُنہوں نے آپؐ کی شان میں اَشعار کہے، اور وہ آپؐ کی طمانیت کا باعث بنے، اور آپؐ نے اُن کی نعت گوئی کے طریقہ کار اور اشعار کو پسند فرمایا۔ ہر شاعر نئے انداز سے اُن کی خدمت اطہر میں اپنے جذبہ دل، وارفتگی جاں اور خلوص کی مالا پیش کرتا ہے۔ حضرت جامیؒ، حضرت علامہ اقبالؒ، مولانا حالیؒ، حضرت حفیظ تائبؒ اور دیگر شعرا کے اظہار خیال میں یکسانیت کیوں نہیں ہے۔ محض اس لئے کہ آپؐ کی شان و آن کا احاطہ مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ اور نہ ہی ان کی تعریف کرنا ممکن ہے کہ جن کے بارے میں خود خدا پاک قرآن پاک میں پیار بھرے ناموں اور مُحبت بھرے انداز میں مخاطب ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر وقت میں اور ہمیشہ الفاظ و معنی و مفہوم میں تبدیلی ہونے کے باوجود بھی آپؐ کی تعریف تشنہ تکمیل رہیگی کیونکہ یہ کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ محمد عربیؐ کی اُمت کے مومنوں کے بارے میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں۔ جو ہر بچے کی بھی زبان پر ہے کہ ہر لحظہ ہے مُومن کی نئی شان نئی آن رسول پاکؐ کا احاطہ اور تعین کرنا کیونکر ممکن ہے۔ ہم تو ایک بندہ مُومن کی شان بیان نہیں کر سکتے۔ حضورؐ کا ایک درود ہے۔ جس کے معنی ہیں اے اللہ آپؐ کو جَزا دے اُنکی اہلیت کے مطابق کہا جاتا ہے ساٹھ فرشتے ایک بار کہے ہوئے درود کا ثواب تقریباً تین سال تک لکھتے رہتے ہیں، چونکہ اُنکی اہلیت کا کوئی تعین نہیں لہٰذا اسکا پڑھنا فرشتوں کو تھکا دیتا ہے حالانکہ فرشتے نہیں تھکتے۔ مگر اہلیت کا ثواب لکھتے لکھتے تھک جاتے ہیں۔ حفیظ تائب صاحب کو مُجدد نعت لکھنے پر مقرض ہمارے بھائی ’’روُح الامین‘‘ کا نام اللہ اور اُسکے حبیب کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیلؑ کے نام پہ رَکھا گیا ہے۔ جو عموماً نہیں رکھا جاتا لہٰذا غرض نام کی بجائے کام سے ہونی چاہئے۔ البتہ جہاں تک اُنکے سید ہونے اور آل محمدؐ کا اعزاز رکھنے کا تعلق ہے، تو وہاں مجھ جیسے کروڑوں مُسلمان مل کر بھی وہ درجہ نہیں پا سکتے نعت کا لفظی معنی ہے مَدح اور تعریف کرنیکا، کیا یہ لفظ ہم حضورؐ کے علاوہ کسی بھی شخص کیلئے استعمال کر سکتے ہیں؟ علامہ اقبالؒ، مولانا حالیؒ، نعت گوئی کے علاوہ بھی سُخن نوازی کرتے رہے، مگر اُنہوں آپؒ کا قرب خاص حاصل تھا۔ حَفیظ تائبؒ نے جب مَدح نبی کیلئے اپنے آپ کو منتخب کروایا تو پھر نعت نبی کے علاوہ کبھی قلم نہیں اُٹھایا۔ ہماری دَانست میں ہر نعت گو اتنا بڑا اعزاز کا مُستحق ہے کہ حبیبؐ کے صَدقے اُسے جس بڑے القاب سے پُکاریں صحیح ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کو تو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ رسول پاکؐ خود اَشعار پسند فرماتے ہیں۔ اجازت مرحمت فرمانے اور لغت مکمل کرانے میں مدد دیتے ہیں۔ جبکہ ان سب کا اندازِ مَدح مِحبوب خدا جُدا جُدا ہے۔
آخر میں دَست بستہ عرض ہے کہ حدیثِ رسولؐ کیمطابق اگر مُجددالدین ہو سکتا ہے تو مجدد نعت کیوں نہیں کہا جاسکتا ’’بلاشبہ اللہ رَب العزت ہر سو سال کے آخر میں اُمت کیلئے ایسے شخص کو کھڑا کریگا، جو اُمت کیلئے اُسکے دین کی تجدید (نیا) کر دیگا۔ (مشکوٰۃ شریف)
اسلام میں مُثبت انداز میں اپنے خیالات کے اظہار کی گنجائش بہرکیف موجود ہے۔ مگر اسے وطیرہ بنانا اور اپنے موقف میں کوئی تبدیلی لائے بغیر دلائل و فضائل سے آگہی کے باوجود ڈٹ جانا مناسب نہیں کیونکہ اس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر اصلاح کا پہلو پس منظر میں چلا جاتا ہے اور پھر لایعنی بحث و مباحثہ میں قیمتی وقت ضائع ہونے کا دروازہ وَا ہو جاتا ہے۔پچھلے دنوں لفظ مجدد نعت پہ علمی آراء کا اظہار سامنے آیا، ہمارے دین میں جتنی آزادی اظہار و افکار ہے۔ دنیا کے کسی دیگر مذہب میں موجود نہیں۔ حتیٰ کہ آقائے دو جہاں، سرکار دو عالمؐ کو بھی ایک باندی نے بصد اکریم یہ جواب دیا تھا کہ میری جان آپ پہ قربان، حضورؐ اگر تو یہ آپؐ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر، مجھے منظور ہے، اور اگر یہ مشورہ ہے، تو مجھے اس میں اختلاف ہے۔ یہ سُنکر سرکار کائناتؐ نے نہ تو بُرا مانا۔ نہ اُن کے رویے میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی اُنہوں نے اِس جواب میں خفگی کے ردِعمل کا تاثر دیا اور معمول کے مطابق اس سے سلوک فرمایا۔ حضرت حَسانؓ کا مقام نعت گوئی، اور تعریف و توصیف محمد عربیﷺ پہ سند کا مقام رَکھتا ہے۔ جہاں اُنہوں نے آپؐ کی شان میں اَشعار کہے، اور وہ آپؐ کی طمانیت کا باعث بنے، اور آپؐ نے اُن کی نعت گوئی کے طریقہ کار اور اشعار کو پسند فرمایا۔ ہر شاعر نئے انداز سے اُن کی خدمت اطہر میں اپنے جذبہ دل، وارفتگی جاں اور خلوص کی مالا پیش کرتا ہے۔ حضرت جامیؒ، حضرت علامہ اقبالؒ، مولانا حالیؒ، حضرت حفیظ تائبؒ اور دیگر شعرا کے اظہار خیال میں یکسانیت کیوں نہیں ہے۔ محض اس لئے کہ آپؐ کی شان و آن کا احاطہ مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ اور نہ ہی ان کی تعریف کرنا ممکن ہے کہ جن کے بارے میں خود خدا پاک قرآن پاک میں پیار بھرے ناموں اور مُحبت بھرے انداز میں مخاطب ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر وقت میں اور ہمیشہ الفاظ و معنی و مفہوم میں تبدیلی ہونے کے باوجود بھی آپؐ کی تعریف تشنہ تکمیل رہیگی کیونکہ یہ کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ محمد عربیؐ کی اُمت کے مومنوں کے بارے میں علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں۔ جو ہر بچے کی بھی زبان پر ہے کہ ہر لحظہ ہے مُومن کی نئی شان نئی آن رسول پاکؐ کا احاطہ اور تعین کرنا کیونکر ممکن ہے۔ ہم تو ایک بندہ مُومن کی شان بیان نہیں کر سکتے۔ حضورؐ کا ایک درود ہے۔ جس کے معنی ہیں اے اللہ آپؐ کو جَزا دے اُنکی اہلیت کے مطابق کہا جاتا ہے ساٹھ فرشتے ایک بار کہے ہوئے درود کا ثواب تقریباً تین سال تک لکھتے رہتے ہیں، چونکہ اُنکی اہلیت کا کوئی تعین نہیں لہٰذا اسکا پڑھنا فرشتوں کو تھکا دیتا ہے حالانکہ فرشتے نہیں تھکتے۔ مگر اہلیت کا ثواب لکھتے لکھتے تھک جاتے ہیں۔ حفیظ تائب صاحب کو مُجدد نعت لکھنے پر مقرض ہمارے بھائی ’’روُح الامین‘‘ کا نام اللہ اور اُسکے حبیب کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیلؑ کے نام پہ رَکھا گیا ہے۔ جو عموماً نہیں رکھا جاتا لہٰذا غرض نام کی بجائے کام سے ہونی چاہئے۔ البتہ جہاں تک اُنکے سید ہونے اور آل محمدؐ کا اعزاز رکھنے کا تعلق ہے، تو وہاں مجھ جیسے کروڑوں مُسلمان مل کر بھی وہ درجہ نہیں پا سکتے نعت کا لفظی معنی ہے مَدح اور تعریف کرنیکا، کیا یہ لفظ ہم حضورؐ کے علاوہ کسی بھی شخص کیلئے استعمال کر سکتے ہیں؟ علامہ اقبالؒ، مولانا حالیؒ، نعت گوئی کے علاوہ بھی سُخن نوازی کرتے رہے، مگر اُنہوں آپؒ کا قرب خاص حاصل تھا۔ حَفیظ تائبؒ نے جب مَدح نبی کیلئے اپنے آپ کو منتخب کروایا تو پھر نعت نبی کے علاوہ کبھی قلم نہیں اُٹھایا۔ ہماری دَانست میں ہر نعت گو اتنا بڑا اعزاز کا مُستحق ہے کہ حبیبؐ کے صَدقے اُسے جس بڑے القاب سے پُکاریں صحیح ہے۔ کیونکہ ان لوگوں کو تو یہ اعزاز حاصل ہوتا ہے کہ رسول پاکؐ خود اَشعار پسند فرماتے ہیں۔ اجازت مرحمت فرمانے اور لغت مکمل کرانے میں مدد دیتے ہیں۔ جبکہ ان سب کا اندازِ مَدح مِحبوب خدا جُدا جُدا ہے۔
آخر میں دَست بستہ عرض ہے کہ حدیثِ رسولؐ کیمطابق اگر مُجددالدین ہو سکتا ہے تو مجدد نعت کیوں نہیں کہا جاسکتا ’’بلاشبہ اللہ رَب العزت ہر سو سال کے آخر میں اُمت کیلئے ایسے شخص کو کھڑا کریگا، جو اُمت کیلئے اُسکے دین کی تجدید (نیا) کر دیگا۔ (مشکوٰۃ شریف)