محمد طارق چودھری ۔۔۔
انسانی ضرورت اور مفادات ہی نہیں قوموں کے مقاصد اور نصب العین تک بدلتے رہتے ہیں لیکن قدرت اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتی۔ اسکے اصول اٹل قوانین مستقل، سنت کبھی تبدیل نہ ہونے والی حقیقت ہے‘ ہم اسے نظر انداز کریں یا بھول جائیں تو یہ ہماری اپنی کوتاہ اندیشی ہے یا حماقت، صانع قدرت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ہم اپنی قسمتوں اور نسلوں کی تباہی کے جہنم میں دھکیل دیتے ہیں۔ قرآن کریم فرقان مجید ہم مسلمانوں کیلئے ابدی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ انسانوں کے خالق نے اپنی کتاب ’لاریب‘ میں ہمارے لئے ارشاد فرمایا:
’’ اے مسلمانوں یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بنائو۔ یہ ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ تم انہی جیسے بن جائو‘‘۔
ہمارے لئے یہ اصول کتاب ہدایت میں لکھ دیا کہ جس میں قیادت تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی مگر ہمارے منافقین انہی کے سائے میں امن و عافیت تلاش کرتے ہماری صدیوں اور نسلوں کی راہ کھوٹی کر گئے۔ وہ دانش ور جو قوم کو چند روزہ عافیت کیلئے روس کی غلامی پر رضامند کیا کرتے تھے، پچھلے ایک عشرہ سے امریکی قوت و حشمت سے ڈرایا کرتے ہیں کیا افغانیوں کی کامیاب مزاحمت اور بار بار کی فتح یابیوں میں ان کیلئے کوئی سبق نہیں؟ ہمارے فوجی ماہرین سفارتی اور سیاسی مبصرین ایک عرصے سے کہتے چلے آئے کہ امریکی بیمار نفسیات کی طاقت ور قوم ہیں، ان میں نخوت، تکبر اور نرگسیت کیساتھ ساتھ انفعالیت پائی جاتی ہے۔ انکے سامنے جھک جائو تو یہ دباتے چلے جائینگے۔ آنکھیں دکھائو تو عزت کرتے ہیں۔ مقابلے پر آ جائو تو بھاگ کھڑے ہونگے یا رونا شروع کر دینگے۔ ہمارے قنوطی مشرفین11 ستمبر2001ء سے مسلسل بھاشن دیتے رہے کہ ’’سلیمان ؑ کا لشکر چلا آتا ہے، چیونٹیو، بلوں میں گھس جائو ورنہ روند ڈالی جائو گی مگر ہم پاکستانی چیونیٹیاں ہیں نہ امریکی سلمانؑ کا لشکر۔ قوم کو مسلسل بتایا جاتا رہا کہ امریکیوں کی راہ میں آئو گے تو آسمان سے بلائیں نازل ہونگی اور پائوں کے نیچے زمین سرک جائیگی۔ ایک دہائی کی ذلت و رسوائی کے بعد پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بار بار کی امریکی جارحیت سے تنگ آکر خیبر پی کے راستے امریکہ اور نیٹو افواج کی تیل، خوراک اور فوجی سازوسامان کی نقل و حرکت بند کر دی تو صرف تین دن میں اتحادی فوج کے سربراہ، نیٹو کی قیادت اور امریکی اکابرین کی طرف سے معذرت اور معافی ناموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا، نیک چلنی کی ضمانتیں دی جانے لگیں یورپی اخبارات، امریکہ ذرائع ابلاغ کو سانپ سونگھ گیا۔ اب گرم تعاقب کی خبریں ہیں نہ زمینی کارروائی کی دھمکیاں۔ ناک رگڑنے اور ضمانتیں فراہم ہو جانے پر گیارہ دنوں کے بعد سپلائی بحال کر دی گئی ہے۔ طور خم کا راستہ بند ہونے سے ایک طرف امریکہ کو اپنی حیثیت جاننے کا موقع ملا تو دوسری طرف پاکستانی قوم کے اعتماد میں اضافہ ہوا کہ ہم ایسے گئے گزرے نہیں کہ بوقت ضرورت بات منو انے کا ڈھنگ اور مقابلہ کرنے کا ہنر نہ جانتے ہوں۔ اس تنازعے کے نتیجے میں یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ امریکہ کو پاکستان میں زمینی کارروائی کرنے اور فضائی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ خلاف ورزی کرنے پر مناسب جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے اور پاکستان کے ردعمل پر امریکہ کی معذرت اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈرون حملوں کا مسئلہ اس سے مختلف ہے۔ یقیناً ملک کی سابق قیادت امریکہ کیساتھ کوئی خفیہ معاہدہ کر چکی ہے موجودہ حکومت بھی اسکی پابندی کرتے ہوئے قوم کو اندھیرے میں رکھ رہی ہے۔ فوج کے ترجمان اور وزارت خارجہ کے بھونپو منافقانہ احتجاج کرتے ہیں ورنہ گیارہ روزہ سپلائی کی معطلی میں ڈرون حملوں کا قضیہ بھی چکایا جا سکتا تھا۔ انہی دنوں میں ڈرون حملوں میں اضافہ ہماری قیادت کی دروخ گوئی اور منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
افغانستان سے روسیوں کے ذلت آمیز انخلاء کو پاکستان کی مہارت، امریکہ کی حکمت عملی اور پیٹرو ڈالر کی وجہ قرار دیا جاتا رہا۔ دنیا بھر کے حکمت کاروں تجزیہ نگاروں، فوجی ماہروں اور تاریخ نویسوں نے افغانوں کی بہادری، جفاکشی، مزاحمت اور بے پناہ گوریلا جنگی مہارت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں باقی رہ جانیوالی واحد سپر پاور امریکہ انہی راستوں اور عزائم کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوئی۔ اب کے بار نسل انسانی نے اپنی تاریخ کا نیا اور انوکھا منظر دیکھا۔ دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور فوج 150 ممالک (ایک سو پچاس) کی مہارت، دولت، سیاسی حمایت سفارتی پشت پناہی کے ساتھ تقریباً دس لاکھ افغانی طالبان پر حملہ آور ہو گئی۔ ننگے پائوں، خالی ہاتھ، بدن پر پرانے بدبودار چیتھڑے لپیٹے ہوئے مفلوک الحال مگر غیرت و حمیت میں یکتا، زندگی پر شہادت کو ترجیح دینے والے، مجاہد دنیا بھر کی چھ ارب آبادی کی سیاسی معاشی فوجی طاقت سے ٹکرا گئے۔ اب دس برس ہونے کو آئے طالبان کے چند ہزار جنگ جو پوری دنیا کی فوج اور مہارت کو پائوں کی ٹھوکر میں رکھے ہیں۔ امریکی اور انکے حمائتیوں کیلئے جائے امان ہے نہ نکل بھاگنے کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ امریکی افغانستان میں اتنے دن قیام کر سکتے ہیں جب تک کہ پاکستان ان کا ساتھ دیتا رہے، پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں ٹھہر نہیں سکتے اور پاکستان کی مدد کے باوجود فتح یاب ہونے کی کوئی صورت نہیں، خطے میں امریکہ کی موجودگی معاشی بدحالی، سیاسی کشیدگی اور علاقائی عدم استحکام کا باعث ہے۔ امریکیوں کا ساتھ دینے میں ہمارا کچھ فائدہ نہیں، سیاسی، معاشی، سفارتی نہ فوجی۔ ہمیں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں اور خطے میں قیام کے منصوبوں سے فاصلہ پیدا کرنا چاہئے، لڑائی میں شامل ہونے سے مکمل اجتناب، خطے میں امریکہ کی موجودگی افغانستان، پاکستان، ایران، چین، سنٹرل ایشیا خود امریکہ اور یورپ کے مفاد میں نہیں۔ شدید عدم تحفظ کی نفسیات میں مبتلا انڈیا، اسرائیل اور سوویت یونین (جو کچھ باقی ہے) چاہتے ہیں کہ امریکہ خطے میں قیام کی مدت کو طویل کرتا رہے کیا ہم اپنے دشمنوں کے مفادات کا تحفظ کریں یا اپنی سلامتی کی فکر ہے؟
امریکیوں کی اب ایک ہی سمت میں مدد اور رہنمائی کرنا چاہئے‘ وہ ہے سلامتی سے نکل جانے کا راستہ۔
انسانی ضرورت اور مفادات ہی نہیں قوموں کے مقاصد اور نصب العین تک بدلتے رہتے ہیں لیکن قدرت اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتی۔ اسکے اصول اٹل قوانین مستقل، سنت کبھی تبدیل نہ ہونے والی حقیقت ہے‘ ہم اسے نظر انداز کریں یا بھول جائیں تو یہ ہماری اپنی کوتاہ اندیشی ہے یا حماقت، صانع قدرت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ہم اپنی قسمتوں اور نسلوں کی تباہی کے جہنم میں دھکیل دیتے ہیں۔ قرآن کریم فرقان مجید ہم مسلمانوں کیلئے ابدی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ انسانوں کے خالق نے اپنی کتاب ’لاریب‘ میں ہمارے لئے ارشاد فرمایا:
’’ اے مسلمانوں یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بنائو۔ یہ ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہیں کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے حتیٰ کہ تم انہی جیسے بن جائو‘‘۔
ہمارے لئے یہ اصول کتاب ہدایت میں لکھ دیا کہ جس میں قیادت تک کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی مگر ہمارے منافقین انہی کے سائے میں امن و عافیت تلاش کرتے ہماری صدیوں اور نسلوں کی راہ کھوٹی کر گئے۔ وہ دانش ور جو قوم کو چند روزہ عافیت کیلئے روس کی غلامی پر رضامند کیا کرتے تھے، پچھلے ایک عشرہ سے امریکی قوت و حشمت سے ڈرایا کرتے ہیں کیا افغانیوں کی کامیاب مزاحمت اور بار بار کی فتح یابیوں میں ان کیلئے کوئی سبق نہیں؟ ہمارے فوجی ماہرین سفارتی اور سیاسی مبصرین ایک عرصے سے کہتے چلے آئے کہ امریکی بیمار نفسیات کی طاقت ور قوم ہیں، ان میں نخوت، تکبر اور نرگسیت کیساتھ ساتھ انفعالیت پائی جاتی ہے۔ انکے سامنے جھک جائو تو یہ دباتے چلے جائینگے۔ آنکھیں دکھائو تو عزت کرتے ہیں۔ مقابلے پر آ جائو تو بھاگ کھڑے ہونگے یا رونا شروع کر دینگے۔ ہمارے قنوطی مشرفین11 ستمبر2001ء سے مسلسل بھاشن دیتے رہے کہ ’’سلیمان ؑ کا لشکر چلا آتا ہے، چیونٹیو، بلوں میں گھس جائو ورنہ روند ڈالی جائو گی مگر ہم پاکستانی چیونیٹیاں ہیں نہ امریکی سلمانؑ کا لشکر۔ قوم کو مسلسل بتایا جاتا رہا کہ امریکیوں کی راہ میں آئو گے تو آسمان سے بلائیں نازل ہونگی اور پائوں کے نیچے زمین سرک جائیگی۔ ایک دہائی کی ذلت و رسوائی کے بعد پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بار بار کی امریکی جارحیت سے تنگ آکر خیبر پی کے راستے امریکہ اور نیٹو افواج کی تیل، خوراک اور فوجی سازوسامان کی نقل و حرکت بند کر دی تو صرف تین دن میں اتحادی فوج کے سربراہ، نیٹو کی قیادت اور امریکی اکابرین کی طرف سے معذرت اور معافی ناموں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا، نیک چلنی کی ضمانتیں دی جانے لگیں یورپی اخبارات، امریکہ ذرائع ابلاغ کو سانپ سونگھ گیا۔ اب گرم تعاقب کی خبریں ہیں نہ زمینی کارروائی کی دھمکیاں۔ ناک رگڑنے اور ضمانتیں فراہم ہو جانے پر گیارہ دنوں کے بعد سپلائی بحال کر دی گئی ہے۔ طور خم کا راستہ بند ہونے سے ایک طرف امریکہ کو اپنی حیثیت جاننے کا موقع ملا تو دوسری طرف پاکستانی قوم کے اعتماد میں اضافہ ہوا کہ ہم ایسے گئے گزرے نہیں کہ بوقت ضرورت بات منو انے کا ڈھنگ اور مقابلہ کرنے کا ہنر نہ جانتے ہوں۔ اس تنازعے کے نتیجے میں یہ بات کھل کر سامنے آ گئی کہ امریکہ کو پاکستان میں زمینی کارروائی کرنے اور فضائی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ خلاف ورزی کرنے پر مناسب جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے اور پاکستان کے ردعمل پر امریکہ کی معذرت اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈرون حملوں کا مسئلہ اس سے مختلف ہے۔ یقیناً ملک کی سابق قیادت امریکہ کیساتھ کوئی خفیہ معاہدہ کر چکی ہے موجودہ حکومت بھی اسکی پابندی کرتے ہوئے قوم کو اندھیرے میں رکھ رہی ہے۔ فوج کے ترجمان اور وزارت خارجہ کے بھونپو منافقانہ احتجاج کرتے ہیں ورنہ گیارہ روزہ سپلائی کی معطلی میں ڈرون حملوں کا قضیہ بھی چکایا جا سکتا تھا۔ انہی دنوں میں ڈرون حملوں میں اضافہ ہماری قیادت کی دروخ گوئی اور منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
افغانستان سے روسیوں کے ذلت آمیز انخلاء کو پاکستان کی مہارت، امریکہ کی حکمت عملی اور پیٹرو ڈالر کی وجہ قرار دیا جاتا رہا۔ دنیا بھر کے حکمت کاروں تجزیہ نگاروں، فوجی ماہروں اور تاریخ نویسوں نے افغانوں کی بہادری، جفاکشی، مزاحمت اور بے پناہ گوریلا جنگی مہارت کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں باقی رہ جانیوالی واحد سپر پاور امریکہ انہی راستوں اور عزائم کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوئی۔ اب کے بار نسل انسانی نے اپنی تاریخ کا نیا اور انوکھا منظر دیکھا۔ دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور فوج 150 ممالک (ایک سو پچاس) کی مہارت، دولت، سیاسی حمایت سفارتی پشت پناہی کے ساتھ تقریباً دس لاکھ افغانی طالبان پر حملہ آور ہو گئی۔ ننگے پائوں، خالی ہاتھ، بدن پر پرانے بدبودار چیتھڑے لپیٹے ہوئے مفلوک الحال مگر غیرت و حمیت میں یکتا، زندگی پر شہادت کو ترجیح دینے والے، مجاہد دنیا بھر کی چھ ارب آبادی کی سیاسی معاشی فوجی طاقت سے ٹکرا گئے۔ اب دس برس ہونے کو آئے طالبان کے چند ہزار جنگ جو پوری دنیا کی فوج اور مہارت کو پائوں کی ٹھوکر میں رکھے ہیں۔ امریکی اور انکے حمائتیوں کیلئے جائے امان ہے نہ نکل بھاگنے کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ امریکی افغانستان میں اتنے دن قیام کر سکتے ہیں جب تک کہ پاکستان ان کا ساتھ دیتا رہے، پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں ٹھہر نہیں سکتے اور پاکستان کی مدد کے باوجود فتح یاب ہونے کی کوئی صورت نہیں، خطے میں امریکہ کی موجودگی معاشی بدحالی، سیاسی کشیدگی اور علاقائی عدم استحکام کا باعث ہے۔ امریکیوں کا ساتھ دینے میں ہمارا کچھ فائدہ نہیں، سیاسی، معاشی، سفارتی نہ فوجی۔ ہمیں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں اور خطے میں قیام کے منصوبوں سے فاصلہ پیدا کرنا چاہئے، لڑائی میں شامل ہونے سے مکمل اجتناب، خطے میں امریکہ کی موجودگی افغانستان، پاکستان، ایران، چین، سنٹرل ایشیا خود امریکہ اور یورپ کے مفاد میں نہیں۔ شدید عدم تحفظ کی نفسیات میں مبتلا انڈیا، اسرائیل اور سوویت یونین (جو کچھ باقی ہے) چاہتے ہیں کہ امریکہ خطے میں قیام کی مدت کو طویل کرتا رہے کیا ہم اپنے دشمنوں کے مفادات کا تحفظ کریں یا اپنی سلامتی کی فکر ہے؟
امریکیوں کی اب ایک ہی سمت میں مدد اور رہنمائی کرنا چاہئے‘ وہ ہے سلامتی سے نکل جانے کا راستہ۔