مکرمی! معزول وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ میں نے خود سنا کہ معزول وزیراعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کا طیارہ کراچی ایئرپورٹ پر اتارنے کا حکم دیا تھا مگر پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سی طاقت تھی کہ جس نے طیارے کو روکنے کی کوشش کی جس کے بعد سابق وزیراعظم کو حکم جاری کرنا پڑا کہ طیارے کو کراچی اترنے دیا جائے۔ 12 اکتوبر1999ء کی رات سے ہی میاں نوازشریف نے اپنے موقف میں سختی اختیار کئے رکھی اور اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کی اور کہا کہ 12 اکتوبر کی رات تین (سینئر) جرنیل ان کی کوٹھری میں آئے اور ایک کاغذ میرے سامنے رکھا اور کہا کہ اس پر دستخط کر دیں جس پر نوازشریف نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس سب کے لئے تمہیں میری لاش پر سے گزرنا ہو گا اور پھر یہ تاریخی جملہ ادا کیا میں اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کو رواج دونگا۔ انہوں نے مشرف کے ساتھ کسی بھی مفاہمت سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ اپنے والد محترم میاں شریف کی میت کے ماتھے پر بوسہ دے کر سعودیہ سے پاکستان رخصت کر دیا۔ اور کوئی رعایت قبول نہ کی۔ اسی طرح ہائی جیکنگ کے مقدمے میں جو سزا سنائی گئی تھی اگر چاہتے تو مشرف سے سودے بازی کر کے خود بھی بچ جاتے اور اپنے ساتھیوں اور اہل خانہ کو بھی بچا سکتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف اور پرویز مشرف کا اختلاف کارگل کے سلسلے پر ہوا جب نواز شریف کو بتائے بغیر یہ اقدام اٹھایا گیا اور اعلان واشنگٹن کے بعد ان کے درمیان اختلافات مزید گہرے ہوتے چلے گئے اور 12 اکتوبر 1999ء کو منتخب آئینی اور قومی کے ووٹوں سے بنی حکومت کو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر گراکر خود جنرل مشرف اقتدار پر براجمان ہو گئے لیکن یہ کیسا اتفاق ہے کہ ایٹمی قوت کی خواہش کرنے والے وزیر اعظم محترم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والا بھی ایک جرنیل تھا اور ایٹمی دھماکے کرنے والے وزیراعظم جناب نواز شریف کو جلا وطن کرنے والا بھی ایک جرنیل تھا۔ یہ بات حیران کن ہے کہ نواز شریف کی رہائی میں اہم کردار ان کے بچوں حسن نواز اور مریم بیٹی نے ادا کیا تھا۔ نواز شریف کی رہائی کے لئے سلسلہ کا آغاز13 اکتوبر 99ء کو ہی ہو گیا تھا۔ جب حسن نواز نے صدر بل کلنٹن سے ٹیلی فون پر بات کی اور بعد میں اپریل2000ء میں نواز شریف کی رہائی کا مطالبہ کیا جس میں جون2000ء میں مزید شدت آ گئی جس کے بعد حکومت شہباز شریف کو رہا کرنے پر تیار ہو گئی تھی مگر وہ نواز شریف کی رہائی کے بغیر کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اس وقت کے تمام اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں میں یہ الفاظ شائع ہوئے کہ شیخ زید نواز شریف کے بارے میں بہت متفکر ہیں اور وہ نواز شریف کے خاطر خون بہا دینے کو تیار ہیں۔ نواز شریف کے وفادار ساتھیوں کا یہ مشورہ کہ جلاوطنی قید سے بہتر ہے کیونکہ بیرون ملک ان سے ملاقات کی جا سکتی ہے اور سیاسی سمت کے بارے میں ان کی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ فیصلہ آج بالکل صحیح ثابت ہوا۔ ایسے عوامی رہنما مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور ایسے کام کر جاتے ہیں جنہیں مدتوں یاد رکھا جاتا ہے۔ میاں نواز شریف کے دونوں ادوار میں تعمیر و ترقی بقا ،سلامتی اور اس کے وجود کو قائم و دائم رکھا اور ملک کو پوری دنیا میں باوقار مقام دلانے کے لئے بے پناہ خدمات سرانجام دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اب ان کے ادوار کو یاد کرتے ہیں اور انہیں پھر سے اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں اور نواز شریف کو بلاشبہ پوری قوم نجات دہندہ کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہے تاکہ اہل پاکستان کا سر فخر سے بلند ہو جائے اور یہ نواز شریف کے لئے ممکن ہے کہ وہ اپنی حب الوطنی کو بروئے کار لا کر یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔ رفاقت شاہ0333-4325061
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024