ایک طرف -9 نومبر کو عمران خان نے بابا گورونانک کے جنم دن پر کرتار پور راہداری کا افتتاح کیا اور اس تقریب کو بھرپور طریقے سے منایا جبکہ مقبوضہ کشمیر کے محصور کشمیریوں کو اُس دن عقوبت، اذیت اور درد کی شدت سہتے 97 واں دن تھا۔ سوشل میڈیا پر اس بات کے حوالے سے تندوتیز تنقیدی عمل جاری تھا۔ الیکٹرانک میڈیا پر پذیرائی کی جا رہی تھی اور اینکرز، رپورٹرز، نیوز کاسٹرز بہت پرجوش دکھائی د ے رہے تھے۔ پرنٹ میڈیا میں ملی جلی کیفیات تھیں۔ دوسری طرف نواز شریف کے حوالے سے بحث چل رہی تھی۔ مریم اورنگزیب مسلسل تشویشناک حالت کا بیان د ے رہی تھیں اور حالت بگڑنے کا عندیہ دے رہی تھیں۔ بار بار پلیٹلس کم ہونے کا رونا کہہ رہی تھیں۔ یہ حال پوری مسلم لیگ کا تھا۔ کبھی پلیٹلس کی تعداد یکدم پچاس ہزار بتانے لگتے تھے اور کبھی ان کی تعداد اتنی کم بتائی جاتی تھی کہ حیرت ہوتی تھی۔ ہماری دعا ہے کہ خدا انہیں زندگی اور صحت دے کیونکہ وہ باطن سے ایک اچھے انسان ہیں۔ سب سے بڑھکر یہ کہ اخلاقی حوالے سے نہایت مہذب آدمی ہیں۔ خدا انہیں آسانیاں د ے۔ تاہم تمام سیاسی سماجی علمی صحافتی ادبی حلقوں میں نواز شریف سے متعلق بحث جاری تھی کہ انہیں این آر او دیا گیا ہے۔ این آر او پر میاں نواز شریف کے ابتدائی موقف پر تنقید کی جا رہی ہے جس میں انہوں نے این آر او لینے اور ملک سے باہر نہ جانے کی باتیں کی تھیں لیکن یہ سطور پڑھنے تک وہ لندن روانہ ہو چکے ہونگے۔ این آر او پر عمران خان کے مسلسل بیانات آ رہے تھے کہ میں کسی صورت این آر او نہیں د وں گا لیکن چھ دن پہلے جب وہ سروسز ہاسپٹل میں تھے تو اُن کے باہر جانے کی مصدقہ اطلاعات آ گئی تھیں۔ کچھ لوگ اسے ڈیل کچھ لوگ ڈھیل کچھ لوگ این آر او کا نام دے رہے ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ کچھ دو اور کچھ لو پر معاملات طے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ شہباز شریف بھی ہمراہ جا رہے ہیں۔ اگر نواز شریف کے پلیٹلس کی تعداد کو برقرار رکھنے میں ڈاکٹرز ناکام رہے ہیں تو کیا کسی ایک ڈاکٹر کو بھی یہ بیماری سمجھ نہیں آئی۔ کوئی ڈاکٹر بھی نواز شریف کا علاج نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر ایاز کہتے ہیں کہ نواز شریف کا فلاں ٹیسٹ پاکستان میں نہیں ہو سکتا تو 35 سال نواز شریف پاکستان پر حکومت کرتے رہے ہیں۔ تین بار وزیر اعظم بنے ہیں اور شہباز شریف پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے تین مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ اربوں کھربوں روپیہ ہر سال صحت کے شعبے کے لیے مختص کرتے رہے ۔ اس ملک میں ہزاروں قدیوں اور لاکھوں مریضوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے لیکن کسی کو ریلیف نہیں ملتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو سوا سال گزر گیا لیکن کسی نے انصاف کی شکل تک نہیں دیکھی۔ عمران خان نے سوا سال میں یوٹرن کی سینچری مکمل کر لی ہے۔ 2019 ء عوام پر 72 برسوں میں سب سے مشکل اور بھاری سال گزرا ہے۔ آصف زرداری بھی جس دن سے جیل گئے ہیں، روز بیماریوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ جیل جاتے ہی نواز شریف شدید بیمار، آصف زرداری بیمار، فریال تالپور بیمار، رانا ثناء اللہ بیمار، شاہد خاقان عباسی، مریم نواز، سعد رفیق، سلمان رفیق، ڈاکٹر عاصم ملک، غنی مجید، خورشید شاہ، شرجیل میمن سبھی جیل جاتے ہی بیمار پڑ جاتے ہیں حالانکہ سب کو وی آئی پی ، فرسٹ کلاس کمرے ملے ہوئے ہیں۔ ان سارے معاملات کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ پلس دھرنا جاری ہے۔ جہاں ہزاروں پیروکار آتے ہیں اور اسلام آباد میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ فضل الرحمان نے اس دھرنے میں پاکستانی اولمپکس کو رواج دیا ہے اور مردوں کو کھانا پکانے کی تربیت سازی کی ہے۔ مولانا روزانہ عمران خان کا استعفیٰ مانگتے ہیں۔ کوئی مولانا سے پوچھے کہ عمران خان نے روز تقریریں کر کے، اپنی گردن کی رگیں پُھلا کے، پیشانی پر بل ڈال کر اور چہرے پر جھریاں کیا اسی لیے ڈالی تھیں کہ سوا سال وزارتِ عظمیٰ کا چلّہ کاٹ کر بنی گالہ کے اندر محبوس ہو جائیں۔ عمران خان وزارتِ عظمیٰ اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ چھڑانے والے نہ آ جائیں۔ بہرحال مولانا کے عظیم الشان جلسے/ دھرنے/ مارچ میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے صرف تڑکا ہی لگایا ورنہ اصل مارچ تو خود مولانا کے ساتھیوں اور طالب علموں نے کر کے حق ادا کیا ہے۔ اچکزئی اور چند دوسری چھوٹی جماعتوں نے اپنا حصہ بقدر جُثہ ڈالا ہے۔ یہ ہے ہماری سیاسی پارٹیوں کا منشور، کارکردگی، حب الوطنی اور عوام کی بہبود کے منصوبے۔ عوام کی جو حالت 1949ء میں تھی۔ آج یہ حالت 2019ء میں زیادہ بگڑ گئی ہے۔ صرف عوام کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ کبھی عوام کے دکھ درد بانٹنے کے دعوٰے کرتے ہیں اور کبھی پاکستان کو لندن پیرس شکاگو، شنگھائی استنبول بنانے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان اور پاکستانی پہلے سے زیادہ اذیت اور مصیبت میں آ چکے ہیں۔ پاکستانیوں کی سوچ کو تو انہوں نے ملغوبہ بنا دیا ہے۔ پاکستانی عوام تو بیوقوفوں کی طرح اپنا لیڈر، اپنی پارٹی کو بنا کر لڑتے ہیں۔ لیڈر اپنے مفادات کیش کرتے ہیں اور عوام ان کی خاطر لڑتے مرتے ہیں کیونکہ ان نام نہاد لیڈروں نے عوام کو ملغوبہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024