بارہ ربیع الاوّل ہے۔ آج مکۃ المکرمہ کی صبح بھی با کمال نورانی تھی۔ زمین و آسمان پر ملائک خوشیاں منا رہے تھے کہ آج وجہ تخلیق کائنات کا ظہور ہونے جا رہا ہے۔ کائنات کے اندر پھیلے جہالت کے اندھیرے ختم ہونے جا رہے ہیں ۔ آج سیدنا حضرت عبداللہ ؑکے گھر سے جہاں میں نور اترنے والا ہے۔ آج کائنات میں وہ گھڑی آ رہی ہے جس کیلئے اللہ کریم نے پہلے ایک لاکھ چوبیس ہزار کو یہ نوید دے کر بھیجا کہ میرے محبوب کی آمد کی خبر اہل جہاں کو دے دو۔آخر وہ گھڑی جس کا انتظار تھا آپہنچی ۔حضرت عبداللہ بن عوف کی والدہ ماجدہ حضرت شفاء بنت امر کائنات کی سب سے عظیم ماں سیدہ آمنہ ؑکے پاس موجود ہیں نورانی ساعتیں سارے جہانوں کو روشن کرنے آپہنچی ہیں ۔حضرت شفاء بنت امر فرماتی ہیں کہ جب نور دنیا میں نمودار ہوا تو یہ باقی بچوں کی طرح نہیں تھا ۔ ماں کے پیٹ سے دنیا میں تشریف لائے تو نہ صفائی کی ضرورت ، نہ ناف کاٹنے کی ضرورت نہ ختنے کی ضرورت محسوس ہوئی بلکہ پیدائش کیساتھ ہی کمرے میں نور ہی نور پھیل گیا۔اللہ کریم کے محبوب کتنے حسین ہیں کہ چاند آپ ﷺ کا کھلونا بن جاتا ہے جدھر آپکی انگلی جاتی ہے چاند بھی ادھر جاتا ہے اور ابھی تو وہ وقت آنیوالا ہے جب سورج کو اشارے سے واپس جانا ہوگا۔میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ چاند اور سورج میرے آقا کریم ﷺ کے صحابی ہیں ۔ آقا کریم ﷺ نے اپنے کردار کے ساتھ اپنے آپکو منوایا۔
کتنا خوبصورت بچپن تھا کہ جب آقا کریم ﷺ اپنی رضاعی بہن حضرت شیما کے ساتھ بکریاں چرانے جاتے ہیں۔ پتھر موم ہو جاتے ہی۔ کنووٗں کا پانی اوپر آجاتا ہے۔ بادل کا ٹکڑا ہمیشہ سایہ فگن رہتا ہے۔ آپ ﷺ کے اماں حلیمہ کے گھر آنے کے بعد اماں حلیمہ کے دن ہی بدل جاتے ہیں آپکی اونٹنی دودھ نہیں دیتی تھی وہ دودھ دینا شروع کر دیتی ہے۔ بکریاں بھی تمام بکریوںسے زیادہ دود ھ دینے لگتی ہیں ۔آقا کریم ﷺ کی ولادت سے پہلے بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا ۔ لیکن جب آقا کریم ﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی تو اس بارہ ربیع الاوّل سے اگلے بارہ ربیع الاوّل تک اللہ کریم نے سب کو بیٹے ہی بیٹے عطا کیے ۔ آپ ﷺ سارے جہانوں کیلئے رحمت بن کر آئے ۔ ایک مرتبہ حضرت ابو ھریرہ ؓ پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ کو نبوت کب ملی تو بظاہر جواب تھا کہ 40سال 6مہینے 10دن پیر کی رات دس رمضان المبارک کو (اسلامی سال کے مطابق) مگر آقا کریمﷺ نے فرمایا ابو ھریرہ ابھی آدم کی مٹی اکٹھی نہیں ہوئی تھی کہ میرے اللہ نے میرے اوپر نبوت کا تاج سجا دیا تھا۔ میرے آقا کریم ﷺ وجہہ تخلیقِ کائنات ہیں آپ ﷺ کائنات کی روح ہیں جب آپ ﷺ معراج پر گئے تو کائنات کی روح نکل گئی ، کائنات کا نظام ٹھہر گیا جب آپ ﷺ واپس تشریف لائے تو کائنات کا نظام چلا ۔
میرے آقا کریم ﷺ سب کیلئے رحمت بن کر آئے اور اللہ کریم کی واحدانیت کا جو پرچار آپ ﷺ نے کعبہ کے اندر سے بتوں کو توڑ کر کیا اسکی مثال نہیں ملتی ۔ وہ گھڑیاں کتنی با کمال ہوںگی جب آقا کریم ﷺ بت توڑنے کعبے کے اندر گئے ۔ جناب علی ؓ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ میرے کندھوں پر سوارہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا علی تو نبوت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا چنانچہ جناب علیؓ کو اپنے کندھوں پر سوار کر کے بتا دیا کہ علی ؓ کی عظمت کیا ہے۔
چشمِ فلک نے کتنے نظارے کیے ہیں کہ جب آقا کریم ﷺ کعبے کے ساتھ بیٹھے ہیں تو اوپر سے پتھر پھینکا گیا کہ آپ ﷺ کو نقصان پہنچایا جائے اور پھر فتح مکہ کے موقع پر کعبۃاللہ کی چابیاں بھی انہیں دے دیں ۔
مکۃالمکرمہ کے اندر سب کو معاف کرتے بھی دیکھا یہاں تک کہ ہندہ اور ابو سفیان ؓکو بھی معاف کر دیا ۔
چشمِ فلک نے آقا کریم کو غاروں میں امت کیلئے روتے بھی دیکھا اور پھر اللہ کریم کو :
وَلَسَوفَ یُعطِیکَ رَبُّکَ فَتَرضٰی
کہتے ہوئے بھی دیکھا۔
ہمارے اوپر اللہ کریم کی تین رحمتیں خاص ہوئی ہیں :۔
(۱) آقا کریم ﷺ کا امتی ہونا (۲) اپنے گھر کا مہمان بنانا (۳) روز ِ محشر آقا کریم ﷺ کی نسبت سے ہماری بخشش
یہ خاص کرم ہیں ۔ جب اللہ راضی ہوتے ہیں تو اپنا مہمان بنا تے ہیں اسی لیے علامہ اقبال ؒ نے فرمایا کہ :۔
کی محمدﷺ سے وفا تُونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اور اللہ کریم قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ : ۔
قَد جَائَکُم مِنَ اللّٰہِ نُوروَّکِتَاب مُّبِین
جب اللہ کریم بھی یہی فرماتے ہیں تو مجھے اور سارے جہاںکو کہنا چاہیے :۔
یا محمد ﷺ نُورِ مجسّم یا حبیبی یا مولائی
تصویر ِ کمالِ محبت تنویرِ جمالِ خدائی
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024