قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور اس عہد کے مسلمان عمائدین اور سیاسی رہنما اس بات پر متفق تھے کہ دو قومی نظریئے کے تحت تقسیم ہند کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا مگر ان ویژنری رہنمائوں کا یہ مقصد نہیں تھا کہ تقسیمِ ہند کے وقت آزادی کے نام پر چالیس لاکھ پنجابیوں کا قتلِ عام ہوا اور یہ تقسیم انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ خونریزی سے بھری کرب ناک داستانین اپنے پیچھے رقم کر گئی۔ دنیا میں لسانی، جغرافیائی ،مذہبی اور قومیت کی بنیاد پر انسانوںکی تفریق اور تقسیم کا سلسلہ اَبد سے جاری ہے۔ ماضی قریب میں 1990ء کے بعد جب سوویت یونین میں کمیونزم کو شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا اور ڈیڑھ درجن کے قریب نئی مملکتیں اور ریاستیں وجود میں آئیں اور اس بٹوارے میں ایک گولی چلے بغیر مشرقی یورپ اور سینٹرل ایشیا کی سب سے بڑی تقسیم ہوئی اور کم از کم آدھ درجن نئی مسلمان مملکتوں کو آزادی نصیب ہوئی آج بھی آذربائیجان ،ترکمانستان، ازبکستان،قازقستان، کرغیستان اور دیگر ممالک میں مسلم اکثریت کے ساتھ کمیونسٹ رشین قومیت آزادی سے رہ رہے ہیں۔ اس کے بعد مشرقی یورپ کے سابقہ ملک چیکوسلواکیہ کا بٹوارہ کچھ اس طرح سے ہوا کہ رات کو چیکوسلواکیہ کے عوام جب سونے کے بعد بیدار ہوئے تو انہیں ریڈیو اور میڈیا سے پتہ چلا کہ چیکوسلواکیہ اب چیک ری پبلک اور ری پبلک سلواکیہ میں تبدیل ہو چکے ہیں اور عوام نے ایک مذکراتی کمیٹی کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق ایک نظریاتی اور جغرافیائی تبدیلی کو ایک گولی چلے بغیر تسلیم کر لیا۔قارئین!1947ء میں تقسیم سے کچھ دیر پہلے اس وقت کی سکھ سیاسی قیادت بشمول ماسٹر تارا سنگھ لومڑی کی طرح چالاک نہرو اور گاندھی پٹیل صاحب کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اور صرف سکھ ہی نہیں اس وقت کی مسلم اکثریت جس کو مولانا ابوالکلام آزاد اور آل انڈیا دیوبندوقف بورڈ لیڈ کرتے تھے وہ برہمن ہندوئوں کی اس سازش کو پہچان نہ سکے اور دو قومی نظریئے کا ہندوئوں سے زیادہ مذاق اڑانے لگے مگر اس موقع پر ہندوستان کی کرسچین مینارٹی کی ذہنی استعداد کی داد دینی پڑے گی کہ 1946ء کے الیکشن میں انہوں نے مسلم لیگ کو ووٹ دیا اور بعدازاں ان کا بیشتر حصہ پاکستان شفٹ ہو کر اپنا وزن مسلمانوں کے پلڑے میں ڈال دیا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ علاقے مثلاً سیالکوٹ، گوجرانوالہ، راولپنڈی، لاہور اور لائل پور کے اضلاع جہاں کرسچین برادری کافی تعداد میں آباد تھی ان علاقوں سے 1946ء کے الیکشن میں مسلم لیگ نے بھاری اکثریت میں فتح کے جھنڈے گاڑے لیکن پنجاب میں ماسٹر تارا سنگھ کی سیاسی غلطی نے پنجاب کے جاٹ سکھوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور بعدازاں عین بٹوارے کے وقت ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مہاجرین کی ٹرین اورقافلوں پر حملے کروا کر بلھے شاہؒ کی سرزمین کو خون سے نہلا دیا گیا اور تاریخ کے بدترین قتلِ عام کا آغاز ہو گیا اور لاکھوں گھرانے اپنی عزتیں عصمتیں اور اپنی املاک اس سازش کی نذر کر بیٹھے حالانکہ تقسیم سے پہلے متحدہ پنجاب میں کبھی بھی سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی منافرت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔میاں محمد بخشؒ ،بلھے شاہؒ، بابا فریدگنج شکرؒاور سلطان باہوؒ کے کلام کو اورداتا گنج بخش علی ہجویریؒ اور معین الدین چشتیؒ کے افکار کو سکھ اپنے مذہبی کلام کا حصہ مانتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ میاں میر صاحب لاہوری نے اپنے ہاتھوں پہلے گوردوارے کی بنیاد رکھی تھی۔قارئین! گذشتہ شب میں ٹورنٹو کی جامع مسجد رحمت میں عیدمیلادالنبیؐ کی ایک تقریب میں مدعو تھااور خوشگوار حیرت یہ تھی کہ وہاں چند سکھ بھی تقریب میں موجود تھے۔ میرے ساتھ بیٹھے ہوئے72سالہ رنجیت سنگھ نے تعارف کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر چوما اور آنکھوں سے لگا لیا۔ میری حیرانگی دیکھ کر وہ بولا کہ میں اکیس دن کا بچہ تھا کہ انہی دنوں تقسیمِ ہند ہو گئی اور میری ماں مجھے لے کر بھارت چلی آئی اور رب سے میری خواش تھی کہ میں پاکستان جا کر اپنی جنم بھومی کا دیدار کر سکوں اور یہ کہ میں مرنے سے پہلے ننکانہ صاحب اور کرتارپور جا کر ماتھ ٹیک سکوں۔ میں آپ کی تحریریں اور کالم پڑھتا رہتا ہوں آج آپ کی اور سکھ قوم کی کاوشیں رنگ لے آئی ہیں اورجنرل قمر جاوید باجوہ صاحب اور عمران خان صاحب کی بدولت یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ہے اور اب میں پہلی فرصت میں پیارے پاکستان کی زیارت کو جائوں گا۔قارئین! میلادالنبیؐ کی اس تقریب میں موجود سبھی سکھ بھائیوں نے نعت خوانوں کو داد دی اور وہ بآواز بلند ہمارے ساتھ درود شریف کا ورد کرتے رہے اور مجھے خوشی ہوئی کہ ایک اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھنے والے ہمارے سکھ بھائی، ہماری دھرتی ماں ہمارے پنجاب کا اثاثہ ہیں۔ یہ پنجاب جتنا ہمارا ہے اتنا ہی سکھ پنجابیوں کا ہے، جس کے لیے انہیں کسی بھی سرٹیفکیٹ یا فتوے کی ضرورت نہیں ہے۔قارئین! آج کا دوسرا موضوع جو تقریباً بائیس کروڑ عوام کے ہرفرد کا ہے وہ میاں نوازشریف ،ان کے اہل خانہ اور بیٹی مریم نوازشریف کی بغرضِ علاج لندن روانگی کی خبر ہے ۔ کیا ڈیل ہوئی یا ڈھیل دی گئی یا یہ کسی عالمی دبائو کا نتیجہ تھا یا یہ کسی سیاسی و معاشی پریشر کے اسباب تھے۔ اس کا سوفیصد تجزیہ تو آنے والے دنوں میں تاریخ کرے گی ۔ کون سچا، کون جھوٹا، کون بِکا، کس نے بیچا اور کتنے میں بیچا۔ یہ
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024