عمران خان کی کرتارپور راہداری کے افتتاح پر مودی کو مسئلہ کشمیر حل کرکے خوشحالی کیطرف گامزن ہونے کی پیشکش
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ہفتہ کے روز کرتارپور راہداری کاافتتاح کردیا۔ اس موقع پر بھارت کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ ، بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ، سابق ٹیسٹ کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو، معروف اداکار سنی دیول سمیت پاکستان کے کابینہ کے ارکان اور حکام بھی موجود تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مودی اگر میری بات سن رہے ہیں تو سنیں انصاف سے امن ہوتا ہے نا انصافی سے انتشار پھیلتا ہے، کشمیر کے لوگوں کو انصاف دیں اور برصغیر کو آزاد کردیں، ہمیں اس مسئلے سے آزاد کریں تاکہ ہم انسانوں کی طرح رہ سکیں، سوچیں بارڈر کھلے گا اور تجارت ہوگی تو کتنی خوشحالی آئیگی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ دیکھ رہا ہوں کہ 70 سال سے اس مسئلے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے نفرتیں ہیں لیکن جب مسئلہ کشمیر حل ہوجائیگا تو انشاء اللہ برصغیر میں بھی خوشحالی آئیگی اور خطہ اُٹھ جائیگا، انشاء اللہ وہ دن دور نہیں ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ لیڈر نفرتیں نہیں پھیلاتا اور جو نفرت پھیلاکر ووٹ لیتا ہے وہ لیڈر نہیں ہوتا، ہم ہمسایوں کی طرح بات چیت کرکے اپنا مسئلہ حل کرسکتے ہیں، جب منموہن سنگھ وزیراعظم تھے تو انہوں نے کہا کہ تمام برصغیر اٹھ سکتا ہے، بس ہم کشمیر کا مسئلہ حل کریں اور میں نے یہی بات مودی کو کہی، کہا کہ ہم یہ مسئلہ کیوں حل نہیں کرتے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے آج جو کشمیر میں ہورہا ہے یہ زمینی مسئلے سے اوپر نکل گیا اور یہ انسانی حقوق کا مسئلہ بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 80 لاکھ لوگوں کے سارے انسانی حقوق ختم کرکے وادی کو 9 لاکھ فوج کے ذریعے بند کیا ہوا ہے، یہ انسانیت کا مسئلہ ہے، جو حق اقوام متحدہ نے انہیں دیا وہ چھین لیا، اس طرح کبھی امن نہیں ہوگا، اس وجہ سے سارے تعلقات رکے ہوئے ہیں۔دریں اثناء بھارتی سپریم کورٹ نے تعصب پر مبنی فیصلہ سناتے ہوئے تاریخی بابری مسجد کی متنازع زمین ہندوئوں کے حوالے کر دی جبکہ مسلمانوں کو مسجد تعمیر کرنے کیلئے متبادل کے طور پر علیحدہ زمین فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ آج ایک بار پھر عظیم قائد محمد علی جناح کا ہندو شدت پسندی کے بارے میں نظریہ درست ثابت ہوگیا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے لکھا کہ آج ہندوستان کی تمام اقلیتوں کو ایک بار پھر احساس ہو جانا چاہئے کہ ہندوتوا کے بارے میں ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح کا نظریہ بالکل ٹھیک تھا اور یقینی طور پر بھارت میں موجود اقلیتوں کو اب ہندوستان کا حصہ بننے پر افسوس ہو رہا ہوگا۔
کرتار پور راہداری کے حوالے سے حکومت پر ایک مسلسل دبائو تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی سفاکیت میں مسلسل 100 دن سے کوئی کمی نہیں آرہی۔ ان حالات میں راہداری کی پاکستان کے اندر سے بھی مخالفت ہورہی تھی۔ بھارتی حکومت کی طرف سے کرتارپور راہداری کی تعمیر کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش اور سازش کی گئی مگر حکومت نے سکھوں کو انکے مقدس ترین مقام تک رسائی کا جو عزم ظاہر کیا تھا‘ اس پر مستقل مزاجی سے قائم رہی اور بروقت اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا۔ بھارتی وزیراعظم مودی کی طرف سے بھی پاکستان کے اس اقدام پر اظہار تشکر کیا گیا۔ گرداسپور کوریڈور انٹیگریٹڈ چیک پوسٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا عمران خان نے بھارت کے جذبات کو سمجھا‘ پاکستان نے جلد راہداری مکمل کردی جس پر عمران خان اور پاکستان دونوں کا شکریہ۔ مودی اس روز چند قدم آگے آجاتے اور کرتارپور راہداری کا اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مل کر افتتاح کرتے تو پاکستان اور بھارت کے مابین انتہائی کشیدگی کے بادل چھٹنے میں ضرور مدد ملتی مگر مودی کیلئے سابق بھارتی حکمرانوں کے مقابلے میں پاکستان سب سے زیادہ ناقابل برداشت ہے۔ دوسری طرف انہیں آرایس ایس جیسی جنونی تنظیم کا بھی سامنا تھا جس کیخلاف وہ کوئی کام کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایک طرف وہ پاکستان کا شکریہ ادا کررہے تھے تو دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ متعصبانہ فیصلہ سنا رہی تھی۔
پاکستان نے بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے بابری مسجد کے متنازعہ فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس دن یہ فیصلہ سنانے کی کیا وجہ ہے؟ کرتارپور راہداری کے افتتاح کے روز فیصلہ سنایا گیا آخر کیوں؟ اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ بی جے پی کی سازش ہے۔ ہندوئوں کے حق میں فیصلہ آنے پر وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ پر بے پناہ دبائو ہے اور مودی کی سیاست نفرت کی سیاست ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کی کانگرو کورٹ حیثیت کا اندازہ مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کے شب خون کیخلاف اور کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کیلئے دائر درخواستوں پر سماعت سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ حکومتی وکلاء نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو بھارت کی سب سے بڑی عدالت کو بے خبر رکھنے کی کوشش کی۔ درخواست گزاروں کی طرف سے حقائق سامنے لانے پر وکلاء کے جھوٹ کا پول کھل گیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وادی میں سب اچھا ہے مگر آج ظالمانہ کرفیو کو 100 دن ہوگئے‘ کشمیری بدترین عذاب سے گزر رہے ہیں مگر حقائق سامنے آنے کے باوجود بھارتی سپریم کورٹ کشمیریوں کو کوئی ریلیف نہیں دلا سکی۔ مقبوضہ کشمیر کا اپنا آئین اور عدالتیں تھیں‘ کشمیر کا خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد سب ملیامیٹ ہوچکا ہے۔ کشمیری انصاف کیلئے سپریم کورٹ کے علاوہ کہاں جائیں؟
کشمیریوں اور پاکستان نے مودی سرکار کے کشمیر اور کشمیریوں پر شب خون کیخلاف دنیا کے سامنے آواز اٹھائی‘ ہر ممکنہ پلیٹ فارم کے دروازے پر دستک دی‘ دنیا کے طاقتور ممالک‘ بڑے اداروں اور بااثر شخصیات سمیت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی پاکستان کا موقف سنا گیا اور کشمیریوں پر بھارتی ظلم و بربریت کی مذمت اور اظہار تشویش کیا گیا۔ ان کو ہر ممکن مدد کا یقین بھی دلایا گیا بھارت پر کشمیریوں کے حقوق کی بحالی پر زور دیا مگر بھارت پر ایسی باتوں کا کبھی کوئی اثر ہوا نہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ 80 لاکھ انسانوں کو بھارت کے بے رحم پنجوںسے نجات عالمی برادری کی طرف سے راست اقدام کے ذریعے ہی مل سکتی ہے۔ پاکستان کی طرف سے عالمی ضمیر کو جگانے کی ہرممکن کوشش کی گئی مگر معاملہ اسکی طرف سے زبانی کلامی تشویش اور مذمت اور تقاضوں سے آگے نہیں بڑھ پارہا۔ کیا دنیا آخری کشمیری کے بھارتی مظالم کی بھینٹ چڑھنے کی منتظر ہے۔ آخر کرفیو مزید کتنا عرصہ جاری رہے گا۔ سردست کرفیو کے خاتمے کی ضرورت ہے تاکہ کشمیری عوام اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرسکیں۔
پاکستان نے بھارت کے معاندانہ‘ متعصبانہ اور جارحانہ رویوں کے باوجود ہمیشہ امن کا پیغام دیا اور خیرسگالی کے اقدامات اٹھائے۔ ان میں کرتارپور راہداری اہم ترین ہے جس کی تعریف کئے بغیر خود پاکستان کا سب سے بڑا دشمن مودی بھی نہ رہ سکا۔ پاکستان بھارت کی خوشحالی اور خطے کی ترقی کے راستے دونوں ممالک کے مابین تنازعات طے ہونے ہی سے کھل سکتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے راہداری کے افتتاح کے موقع پر ایک بار پھر بھارت کے سامنے خطے کے امن‘ ترقی اور خوشحالی کا فارمولا رکھ دیا جس پر عمل ناممکن نہیں ہے۔ انسانیت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے۔ بھارت کے اندر سے بھی مسئلہ کشمیر کے حل کی باتیں ہوتی ہیں۔ سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ 9 نومبر کو کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے آنیوالے ہزاروں بھارتی پاکستان کی طرف سے امن کا پیغام لے کر واپس گئے۔ روزانہ بھارت سے سکھوں سمیت کسی بھی قومیت و مذہب کے پانچ ہزار لوگ کرتارپور میں بابا گورونانک کے ڈیرے پر آیا کرینگے۔ یہ لوگ امن کے پیامبر ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک سال میں ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔ یہ لوگ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی‘ بھارتی حکمرانوں کی طرف سے پاکستان کیخلاف جارحانہ رویوں اور دشمنی میں کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ بعید نہیں کرتارپور راہداری کے باعث مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی کوئی سبیل بھی نکل آئے۔ اس سب کے باوجود پاکستان کو اپنی سلامتی کے تناظر میں سکیورٹی کے مکمل انتظامات کرنے ضروری ہونگے کیونکہ اس سے بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو بھی ہوا دے سکتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024