تاریخی اور فن تعمیر کا عمدہ نمونہ بابری مسجد 493 سال قبل 1528-29 کو ہندوستانی مسلمانوں نے خالی جگہ پر تعمیر کی ، جس پر صدیوں نماز پڑھی جاتی رہی۔ پھر بھارتی ہندو انتہا پسندوں کے ذہنوں میں شیطان نے انگڑائی لی اور اُنہوں نے اس پر قبضہ کر کے یہاں (رام) مندر بنانے کی ٹھان لی۔ آر ایس ایس نے اسے منہدم کرنے کی ذمہ داری اُٹھا لی۔ تحقیقات کے مطابق سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگانے والے وحشی اور بابری مسجد کو منہدم کرنے والے ایک ہی تھے، جنہیں آر ایس ایس کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے آر ایس ایس کے خوف سے انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ دیا ہے۔ حالانکہ یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کو گرانے کا عمل غیر قانونی تھا، لیکن پھر بھی منہدم کرنے والوں کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ بھارتی سپریم کورٹ کے جعلی فیصلے کے نمایاں نکات یہ ہیں۔
-1 جو بھی شہادتیں پیش کی گئی ہیں اُن کی روسے ثابت ہوتا ہے کہ متنازع جگہ رام مندر بنانے کے لیے ہندوئوں کو دے دینی چاہئے۔ -2 مسلمانوں کو مسجد بنانے کے لیے کہیں اور جگہ دے دی جائے۔ -3 وفاقی حکومت (ظاہر ہے وزیر اعظم مودی کے تحت) ٹرسٹ تشکیل دے جو رام مندر کی تعمیر کی نگرانی کرے۔ -4 مسلمانوں کا بابری مسجد کی ملکیت کا دعویٰ خارج کیا جاتا ہے۔ -5بھارتی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے کر اپنی ساکھ ختم کر لی ہے، اس فیصلے سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان مودی کو وزیر اعظم بنانے کے سمجھوتے کی توثیق کر دی ہے۔ آر ایس ایس اور وزیر اعظم مودی کے درمیان معاہدہ تھا:۔
-1 دستور ہند کی دفعات 370 ، 35 اے آئین سے خارج کر دی جائیں گی، جس سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ -2 بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنایا جائے گا۔ -3 یہ طے ہو گیا کہ بھارت میں ہندوئوں کے رسوم و رواج اور ہندو ازم کی بات چلے گی۔
بھارت کے ممتاز ماہر تعمیرات و آثار قدیمہ مسٹر ورما نے عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ بابری مسجد رام مندر کی جگہ نہیں بنائی گئی، یوں ایک مستند ماہر آثار قدیمہ نے عدالت میں پیش کی گئی سُنی سنائی باتوں پر مبنی رپورٹ نمبر 130 کی دھجیاں بکھیر د یں کہ بابری مسجد کسی رام کے نام سے موسوم مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی تھی۔ آر ایس ایس اور مودی کی مصدقہ تاریخ نے بھارت کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں کے سامنے عریاں کر دیا ہے کہ دس اشتہاری دہشت گردوں کی فہرست میں (وزیر اعظم) مودی بھی شامل ہے۔ مودی نے افغانستان اور امریکہ کے انٹی پاکستان سنڈروم کی آڑ میں امریکنوں کے ہاں اپنی جگہ بنا لی۔
بابری مسجد کو آر ایس ایس کی سٹریٹ سپورٹ کے ذریعے گرایا گیا اور لطف یہ کہ جس شخص نے بابری مسجد کو گرانے کی مہم کی قیادت کی تھی، وہ اور اس مہم میں ہی شامل دیگر دو افراد اسلام قبول کر چکے ہیں۔ اس آدمی کا نام واس سببری سنگھ تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد اُس نے محمد عامر کا نام اختیار کر لیا وہ آر ایس ایس کا ایک مشہور لیڈر تھا۔ وہ ہی تھا جو پھائوڑا لے کر سب سے پہلے مسجد کے گنبد پر چڑھا تھا۔ محمد عامر کے دوست محمد عمر کا اسلام قبول کرنے سے پہلے نام یوگندر پال تھا۔ تیسرا شیوپرشاد بجرنگ دل کا یوتھ لیڈر تھا۔ اُس نے مسجد کے انہدام میں جنونیوں کی طرح کام کیا لیکن اس سانحہ کے بعد اُس کا دماغ چل گیا اور وہ آسیب زدہ ہو گیا۔ پھر اُس کی سوچ نے پلٹا کھایا اور وہ شارجہ پرواز کر گیا جہاں اُس نے بھی اپنے پہلے دو ساتھیوں کی طرح اسلام قبول کر کے محمد مصطفی نام رکھ لیا۔
میں پوچھتا ہوں انڈین سپریم کورٹ نے ان تینوں کو کیوں نہ بلایا جو انہدام مسجد کی ناپاک جسارت میں سب سے آگے آگے تھے۔ بلاتے اور اُن کا بیان بھی لیتے۔ لیکن ہم کیا توقع کر سکتے ہیں جبکہ سمجھوتہ ایکسپریس کے مقدمے کا جج مودی کا گہرا دوست تھا۔ جس نے لیفٹیننٹ کرنل شری کانٹ پروہت کی اس مقدمے سے بریت کی راہ ہموار کی۔ اسی طرح آر ایس ایس نے عدالت میں پیشی کے لیے شہادتوں کی راہ روک دی۔ بالکل اسی طرح بابری مسجد کے مقدمے کی سماعت بھی وزیر اعظم مودی کے دوست ججوں نے آر ایس ایس کی دہشت گردی کے زیر اثر کی ، بابری مسجد کا انہدام آر ایس ایس کی کمان میں سوچی سمجھی سازش تھی۔
پاکستان کے عوام اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بابری مسجد کا فیصلہ اُسی دن کیوں سنایا گیا جس دن کرتارپور راہداری کا افتتاح ہونا تھا۔ مودی نے خود اس خاص دن ایک خاص مقصد کے لیے مقدمے کا فیصلہ لیا۔ -9 نومبر کو سکھ برادری اپنے مذہبی اور روحانی پیشوا بابا جی گورونانک کا یوم پیدائش منا رہی تھی۔ اگرچہ ، کرتارپور راہداری کے افتتاح کے موقعہ پر مودی نے حکومت پاکستان کو شکریے کا نیم دلانہ پیغام بھیجا تھا مگر اس میں اخلاص سے زیادہ منافقت پوشیدہ تھی اُدھر راہداری کا افتتاح ہو رہا تھا تو دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ بابر ی مسجد کیس کا جعلی فیصلہ سنا رہی تھی۔ عدالت نے اس خاص موقعہ پر اپنا فیصلہ سُنا کر مسلم اور سکھ دشمن جذبات کا اظہار کر دیا۔ اس فیصلے نے نہ صرف پاکستان کی فیاضی کو خاک میں ملا دیا بلکہ بھارت کے جائز شہریوں، سکھ برادری کو بھی مایوس کیا ، اس لیے کہ یہ فیصلہ اُن کی خواہشات کے بھی برعکس ہے۔ اس فیصلے کی جو صریحاً آر ایس ایس کے دبائو میں آ کر کیا گیا ہے لازماً مذمت ہونی چاہئے۔
اسلامی ملکوں کی تنظیم سے میری تجویز ہے کہ وہ اس فیصلے کو عالمی عدالت انصاف میں اُٹھائے، اس لیے کہ یہ اقوام متحدہ کے ’’میثاق بین المذاہب یکجہتی‘‘ کے بھی خلاف ہے۔ بھارت نے اس میثاق پر دستخط کر رکھے ہیں۔ آر ایس ایس اور مودی نہ صرف بھارتی مسلمانوں کو بلکہ جنوبی ایشیاء کی مسلم برادری کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔ وہ اپنے ہندو وتوا نظریات کو نافذ کرنے کیلئے بھارتی مسلمانوں کو تبدیلیٔ مذہب اور بصورت دیگر بھارت سے نکل جانے پر مجبور کریں گے اور وہ اپنے ان مقاصد کے حصول کیلئے مسلمانوں پر کسی قسم کے ظلم و تشدد سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ فوراً خصوصی اجلاس طلب کریں اور ایک عبادت گاہ کو تباہ کر کے بین المذاہب یکجہتی کی اس سنگین خلاف ورزی کا نوٹس لیں اور عالمی عدالت انصاف سے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دلائیں۔ دیکھتے ہیں کہ او آئی سی بھارتی مسلمانوں کی عزت کو بچانے کی خاطر کیا اقدام کرتی ہے یا اسکے برعکس اسی طرح چُپ سادھ لیتی ہے جس طرح اُس نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو گھروں میں نظربند کرنے کے حوالے سے افسوسناک خاموشی اختیار کر لی تھی۔
سمجھوتہ ایکسپریس اور بابری مسجد کے تمام مجرم چھوٹ گئے ہیں اس لیے کہ مودی سرکار نے اس قسم کے تمام دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو تحفظ دینے کا ذمہ لے رکھا ہے۔ سکھوں کے ساتھ پاکستان کے فیاضانہ سلوک اور برتائو کو آر ایس ایس کے کمانڈر انچیف مودی پسند نہیں کرتے۔ مودی نے اپنی سپریم کورٹ کے متوقع فیصلے کے بارے میں پہلے ہی اشارے دینے شروع کر رکھے تھے۔ آر ایس ایس ، بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانا چاہتی تھی اور وزیر اعظم مودی نے اپنی آر ایس ایس کے بالکوں کی راہیں آسان کر دی ہیں۔ انڈین سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی طرح بھارت کی کوئی بھی عدالت آر ایس ایس کو ’’نہ‘‘ نہیں کہہ سکتی۔ مودی ! یاد رکھو، تمہارا زوال بھی آر ایس ایس کے کسی دھڑے کے ہاتھوں ہی ہونے والا ہے۔
نوٹ:۔ اس مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ مکمل طور پر میرے اپنے ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ میری پارٹی کے نظریات یا آراء کے عکاس بھی ہوں۔
(ترجمہ: حفیظ الرحمن قریشی)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024