''پاکستان دے سکھاں دے لئی ڈیرہ نانک والا لاہنگا وی کھولیاجائے'' ہنس مکھ نجوت سدھو اپنی شاعری اورتقریر کے جوہر دکھا رہا تھا وہ اپنے یار عمران خان سے مخاطب تھا اوراس کالم نگار کو 30برس پر محیط اپنے طویل سفر کی مختلف منازل یاد آرہی تھیں ایسا سفر جس کی تعبیرکھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔یادوں کی یلغار تھی اور آنسووں کا سیل آب تھا اوریہ کالم نگاراس میں بہتاجارہا تھا دربار صاحب کرتارپورکو کھلا مذہبی علاقہ بنانے کا تصور شکرگڑھ کے معروف بزرگ دانشور سیاستدان مہاگروانورعزیز چودھری نے 1962میں پیش کیاتھا یہ انورعزیز چودھری ہی تھے جو ہر جمعرات بابا گرونانک کی قبر پر چراغ روشن کرنے کے لیے حاضری دیتے رہے‘ اس وقت دربار صاحب کرتارپور خانہ ویران کا منظرپیش کیاکرتاتھا۔
دربارصاحب کرتارپور میں باباجی گرونانک کی قبر اور سمادھی آمنے سامنے موجود ہیں اب تو برادرم احسن اقبال بھی بہت سے دعوے کررہے ہیں 1962میں تو شاید ابھی وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے یا پھر ان کے دودھ کے دانت بھی نہیں گرے ہوں گے مجھے جماعت اسلامی کے ایثارپیشہ سکریڑی جنرل امیرالعظیم یاد آرہے تھے جنہوں نے کوٹ لکھپت جیل "یونیورسٹی" میں اپنے ہم جماعت"سرداروں"سے کچھ اس طور تعلقات اورمراسم استوار کیے کہ ‘من توکی’ کی تفریق ختم ہوگئی۔
ساہیوال کے ترقی پسند زمیندار شبیرباجوہ یادآئے جنہوں نے موروں کے جوڑوں کو دربار صاحب کے لیے دان کیا کہ مور باباجی گرونانک کو بہت پسند تھے‘ اپنے عامرمتین یاد آئے پھر پٹیالہ یاد آیا، وہی عامر متین جوٹی وی چینلوں پر اپنی دانش کے چراغ جلانے والے اکل کھرے دانشور ہیں اوراپنے پیارے پنکا ویرجی یاد آئے جو بوجوہ آج کی تقریب میں موجود نہیں تھے۔ باباجی انورعزیز نے 8نومبر کی شب فون کرکے بتایا کہ مختلف وجوہ کی بنا پر اس تاریخی اورمبارک موقع پر غیرحاضررہنے کو ترجیح دی۔
اپنے مظہربرلاس رنگین لاچے سمیت موجود تھے۔ مسوتابھائی سوئیٹرزلینڈ سے اوراپنے پیارے اکبر چودھری واشنگٹن سے آئے ہوئے تھے لیکن ان سے ملنے کی بجائے پیچھے بیٹھا آنسووں کے سیلاب میں ڈوبا رہا۔
سچی بات ہے کہ آگے جانے اوردوستوں سے ملنے ملانے پر طبیعت آمادہ نہ ہوئی۔گریہ دل ودماغ کو ٹھنڈاکرتاہے یوں محسوس ہورہا تھا کہ اندرونی صفائی ہوگئی آنکھیں بندکیے بیٹھا تھا کہ اچانک مرشدم مجید نظامی خوش وخرم تشریف لائے کہنے لگے'ہن خوش ایں'مبارک ہوئے آج پنجاب دالانگا نئیں کھلیاساڈی تقدیر بدل گئی اے''۔
انورعزیزچودھری نوں مبارک آکھیں ''خوش قمست اے اپنی زندگی وچ اپنے خواب دی تعبیر ویکھ لئی''مجھے بے طرح اپنا جوانی کا یاردلدار انتخاب ضیایاد آیا جسے دہلی پالم ائیرپورٹ سے اغواکرکے پنجاب کی سرحد پر بھارتیوں نے مارڈالا تھاپاطارق اسمعیل یاد آئے جو پنجاب کے سیاسی خاندانوں کے شجرہ ہائے نصب پر اتھارٹی تھے۔
کیاخوش بخت ہیں عمران خان جس کے کھاتے میں ساراکریڈٹ جارہا ہے نجانے کتنے سینکڑوں نہیں ہزاروں جوان رعنا اس منزل کو پانے کے لیے مختلف محاذوں پر تاریک راہوں میں مارے گئے وہی اس کی بنیاد کا پتھر بن گئے صرف 10ماہ کی قلیل مدت میں ایف ڈبلیواو نے ایک خواب کو مجسم کردکھایا 800ایکڑپر مشتمل وسیع و عریض کمپلیکس ہمارے سامنے جگمگا رہا تھا نیلگوں آسمان صاف شفاف دن اور تیز دھوپ جلوے دکھا رہی تھی۔ خوش رواورخوش گلو سردارنیاں دنیا کے کونے کونے سے یہاں جمع تھی اوراپنی درشن دیدار نہیں جی نہیں کھلے درشن دیدار کی "ارداس" دعاوں کی قبولیت پر خوشی کے پنجابی گیت گارہی تھیں خوشیوں سے سرشار باباجی گرونانک کے درپر حاضری دے رہی تھیں۔
نصف صدی بعد 2070میں جب پس پردہ تاریخ رقم ہوگی اصل حقائق سامنے آئیں گے تو وقت ثابت کرے گا کہ دربار صاحب کرتارپور راہداری کے مخالف دانشور اگرمگراورچونکہ چنانچہ کا گھن چکر چلانے والے تاریخ کے کوڑے دان میں جائیں گے مورخ لکھے گا کہ کس طرح ایک لفظ"شیری"نے جنوبی ایشیا کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی تقدیر بدل کررکھ دی تھی کیسے ایک جاٹ جرنیل کی تھپکی نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا تھا؟
کیسے ہندوستان میں انتہا پسندی کے طوفان کا رخ موڑ دیا گیا تھا کہ موذی مودی بھی سرحد کے اس پارڈیڑہ بابانانک میں کھڑے ہوکر وزیراعظم عمران خان کی تعریف کرنے پر مجبورہوگیا تھا۔
دربارصاحب کرتارپورکے زائرین کے لیے ویزافیس ختم کرنے کی تجویز اخبارنویسوں کے قائد افضل بٹ نے نیویارک میں خارجہ شاہ محمود قریشی کوپیش کی تھی جس پر حکومت پاکستان نے ویزافیس کے ساتھ ساتھ پاسپورٹ کی شرط بھی ختم کردی جس کے بعد بھارتی زائرین کسی بھی قابل قبول شناختی دستاویز پر بین الااقوامی سرحد عبور کرسکتے تھے لیکن انتہا پسند مودی سرکارنے ان اقدامات کو قبول کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد سابق وزیراعظم من موہن سنگھ سمیت تمام بھارتی اکابرین کوباضابطہ ویزالے کرآنا پڑا جبکہ سردارمن موہن سنگھ اورکیپٹن امریندرسنگھ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے تقریر بھی نہ کرسکے۔
المیہ یہ ہے کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم ہونے کے بعد کشمیر ی بھی بھارتی پاسپورٹ پر لائن آف کنٹرول کاسفر کرسکیں گے۔ پرمٹ پر سفرکرنے کی سہولت مودی سرکارنے ختم کردی ہے ساری دنیا مودی پر لعن طعن کررہی ہے جبکہ عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر عمران خان اورجنرل قمر جاوید باجوہ پر برس رہی ہے۔لوگویاد رکھنا جب تاریخ اصل حقائق رقم کرے گی تو سینکڑوں ہزاروں بے نام جیالوں اوردانشوروں کانام کہیں نہیں لکھاجائے گا جن میں سے کچھ دوراْفتادہ سرزمینوں پر رزق خاک ہوگئے۔جناب عمران خان سوال کناں تھے کہ ہم نے کشادہ بازوواکردیئے راہداریاں کھول دیں مودی جی آپ دنیا کی سب سے بڑی جیل کشمیر سے 80 لاکھ قیدیوں کوکب رہا کروگے۔
9لاکھ درندہ صفت فوج کو کب واپس بلائوگے انتہا پسندی اوروحشت کا ننگاناچ کب بند کروگے پاکستان کی طرح اپنی اقلیتوں کاعزت واحترام کرنا کب سیکھوگے دربارصاحب کرتارپورتم سے پوچھ رہا ہے اورنفرت کے سوداگر محبت کے ترانے کب گائوگے اومودی اوقاتل انسانیت کی راہ پر کب آئوگے۔اور یہ کالم نگار بچشم تر بابا جی گورو نانک کی مرقد پر فاتحہ کے لئے اٹھ پڑا زندہ گورو گرنتھ صاحب کا درشن دیدار ہمیشہ طمانیت قلب کا سبب رہا ہے‘ راوی کنارے سر سبز ع شاداب مرغزاروں میں نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی ۔ سدھو اور عمران جیت گئے، مودی کی انتہا پسندی ہار گئی تھی ۔
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38