جب داغ مرحوم نے یہ شعر لکھا تو ان کے لب و لہجے میں تفاخر تھا، تمکنت تھی، فخر و مباہات تھیں۔ انہوں نے اس خوبصورت زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں کا ذکر کیا تھا۔ (SEMANTICS) مفہومیات اور NUANCES) ( (نازک فرق) کی بات کر کے ہر زاویے سے ایک حکیمانہ جائزہ لیا تھا…آج اگر وہ زندہ ہوتے اور اس ملک کے شہری ہوتے جس کا نام پاکستان ہے تو کفِ افسوس ملتے۔ اردو زبان کا نفاذ ایک آئینی تقاضہ تھا، قومی ضرورت تھی مگر اس زبان سے ہماری نوکر شاہی اور مغرب زدہ طبقے نے کدورت اور مخاصمت سے کام لیا ہے۔ جتنی عدم توجہی اور غیریت اس کے ساتھ برتی گئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ 72سال کا عرصہ گزر گیا ہے مگر اس کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکا۔ یہ چل نہیں رہی، خورِ ناتواں کے مانند رینگ رہی ہے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں۔ پائوں میں زنجیریں پہنا دی اور پرواز سے قبل ہی پر کاٹ دئیے گئے ہیں…حیران کن بات یہ کہ اس کو قومی زبان بنانے کا اعلان اس شخص نے کیا جو قوم کا محسن تھا جس نے پاکستان بنایا ۔ اردو اس کی مادری زبان نہ تھی۔ انگریزی پر اس قدر دسترس رکھتا تھا کہ ٹٹ پونجیے اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ قائد اعظم نے ڈھاکہ میں اس کا اعلان بڑی سوچ بچار کے بعد کیا تھا اور اس میں بڑی مصلحت کارفرما تھی ۔ اردو کسی صوبے کی زبان نہ تھی۔ یہ مسلمانوں کی زبان تھی، ان کی شناخت تھی۔ اگر کسی صوبے کی زبان اپنائی جاتی تو تعصب پھیلتا۔ انگریزی کو اپنانے کی کوئی تُک نہ تھی۔ اس سے غلامی کی چھاپ مزید گہری ہوتی۔ کچھ یوں گمان ہوتا جیسے وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن ہنوز ہندوستان کا حاکم ہے۔…کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وجہ سے ٹوٹا کیونکہ بنگالیوں نے اس کو قبول نہ کیا۔ اس مدفوق منطق سے اس لیے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہندوستان میں دم مرگ ہندی کو قومی زبان بنادیا گیا۔ اصولاً وہاں کے بنگالیوں کو احتجاج کرنا چاہئے تھا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا کلکتہ جیسے بڑے شہر میں بھی کسی نے احتجاج نہ کیا۔ اسرائیل نے ایک مردہ زبان عبرانی کو ازسرِنو زندہ کیا۔ دیگر ممالک سے آئے بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے یہودیوں نے بسرو چشم اس کو سینے سے لگا لیا کیونکہ یہی زندہ قوموں کا طریق ہوتا ہے۔
شروع میں یہ مدفوق منطق بھی اختیار کی گئی کہ زبان کا ظرف تنگ ہے۔ اس میں دیگر سائنسی علوم کو اپنے اندر جذب کرنے کی سکت نہیں ہے۔ یہ منطق اس وقت بھی اختیار کی گئی تھی جب سائنسی علوم کو لاطینی زبان سے انگریزی کے قالب میں میں ڈھالا جا رہا تھا…سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں جو ترقی روس، جرمنی، جاپان اور سب سے بڑھ کر چین نے کی ہے، کیا یہ انگریزی کی وجہ سے ہے؟ دروغ گو را بہانہ بسیار۔
اگر یہ بات ہے تو پھر اصل مسئلہ کیا ہے؟ کیونکر اردو کو وطنِ عزیز میں پنپنے اور پھلنے پھولنے نہیں دیا جاتا؟ اصل وجہ یہ ہے کہ ملک تو آزاد ہو گیا ہے مگر فکر و نظر آزاد نہ ہو سکی۔ ایک نہایت قلیل مگر منظم گروہ پیرتسمہ پا کی طرح قوم کے اعصاب پر سوار ہے۔ انہیں حکومت کرنا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ کلیدی عہدوں کے دروازے عوام الناس پر بند کر دئیے جائیں۔ جس طرح ہندوستان میں ایک طویل عرصہ تک برہمنوں نے سنسکرت کے ذریعے مناپلی قائم کئے رکھی۔ اسی طرح پاکستان کے ’’براہمن‘‘ یہ کام انگریزی کے ذریعے کر رہے ہیں۔ یہ غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر بڑے تفاخر سے کہا جاتا تھاکہ فلاں شخص بڑا پڑھا لکھا ہے کیونکہ اسے اردو نہیں آتی یہ وہ لوگ تھے اور ہیںجو تمباکو کے پائپ کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے دریائے ٹیمز میں دھلی ہوئی انگریزی بولتے تھے۔ صاحب لوگ! جو کتوں اور قلیوں کے ساتھ بھی انگریزی میں ہمکلام ہوتے تھے۔ آٹا ہے۔ جاٹا ہے۔ گورا شاہی اردو ایک صاحب نے جن کا تعلق فارن سروس سے تھا اور نام کے ساتھ بھی شاہی کا لاحقہ لگا دیتا تھا، ایک مرتبہ مسلمانوں کو عید گاہ کی طرف جاتے دیکھا تو قدرے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور کدھر جا رہے ہیں۔ جب انہیں بتایا گیا کہ مسلمان عید پڑھنے جا رہے ہیں کہ تو مسکرا کر بولے ’’اچھا۔ ٹم مسلمان لوگ بھی گر جا کرٹا ہے۔‘‘
حاکموں میں غلام حیدر وائیں واحد وزیر اعلیٰ تھے جنہوں نے اردو کے سر پر دستِ شفقت رکھا، جب یہ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو ان کی کل کائنات ایک زنگ آلود ٹرنک تھا جس میں کپڑے کم اور نوائے وقت کے تراشے زیادہ تھے۔ گو میٹرک تک تعلیم تھی مگر لکھنے پڑھنے کا شوق اور ذوق رکھتے تھے۔ وزیر اعلیٰ بننے میں بھی ان کی مساعی کم اور میاں صاحب کی مصلحتیں زیاد ہ کارفرما تھیں۔ کھر اور رامے کے تجربے نے وزرائے اعظم کو محتاط کر دیا تھا۔ چنانچہ پنجاب میں ایک درویش منش نہیں بلکہ درویش شخص کو عنانِ حکومت سونپ دیا گیا ۔ بودلوں کی زمینوں کا منشی! گو عملاً صوبے کو برادرِ خورد چلا رہے تھے مگر ایک بات میں وائیں صاحب نے من مانی کی۔ انہوں نے حکم دیا کہ تمام محکموں کے سیکرٹری انہیں ’’سمریاں‘‘ اردو میں بھیجیں۔ نوکر شاہی میں کھلبلی مچ گئی۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنا ان کے بس کا روگ نہ تھا۔ چنانچہ ہر سیکرٹری کو غیر اعلانیہ ایک ’’منشی منقہ‘‘ بھرتی کرنا پڑا۔ انہوں نے پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ وزیر اعلیٰ ان پڑھ ہے جبھی تو سمریاں اردو میں منگواتا ہے۔ وائیں صاحب پر ان ہرزہ سرائیوں کا کیا اثر ہونا تھا، وہ ڈٹے رہے ۔ کہتے ہیں بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ایک دن، اچانک سول سروس کے ’’گوروگھنٹال‘‘ غلام اسحٰق خان نے سازش کر کے ان کی وزارتِ علیا ختم کر دی۔ برصغیر میں اس سے بڑا سازشی سول سرونٹ کوئی پیدا نہیں ہوا! قدرت اللہ شہاب پر تو حفیظ جالندھری نے محض الزام لگایا تھا۔
جب کہیں انقلاب ہوتا ہے ۔ قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے اصل مجرم شریف الدین پیرزادہ اور غلام اسحٰق خان تھے۔ پہلا جدہ کا جادوگر کے نام سے مشہور تھا تو دوسرے کا جادو سر پر چڑھ کر بولتا تھا۔ اپنی خدمات کے عوض اس نے جنرل ضیاء سے جو عہدہ لیا تھا وہ لارڈ میکالے کے سان و گمان میں بھی نہیں آیا ہو گا۔
سیکرٹری جنرل انچیف…
میں خود بھی نادانستہ طور پر سزا وار ٹھہرا۔ 1992ء میں ڈپٹی کمشنر ملتان تھا۔ میں نے عالمی اردو کانفرنس کرا ڈالی۔ یہ غالباً اپنی نوعیت کی پہلی اردو کانفرنس تھی۔ تمام دُنیا سے اردو دان بلائے گئے، بالخصوص ہندوستان سے گوپی چند نارنگ، جگن ناتھ آزاد اور لکھنو یونیورسٹی کے ڈاکٹر خلیق انجم گیسوے اردو سنوارنے کے لیے آئے۔ میں نے اپنے افتتاحی خطبے میں وزیر اعلیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’وائیں صاحب! اس وزارتِ عُلیا پر بھروسہ نہ کریں۔ یہ آنے جانی والی چیز ہے۔ آپ تاریخ کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ تاریخ نے یہ دیکھنا ہے کہ آپ نے قومی زبان کی کیا خدمت کی ہے۔ تقریر اس شعر پر منتج ہوئی۔
حُسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سوج کو وقت شام دیکھ
تقریب کے بعد منو بھائی کہنے لگے ، شاہ صاحب! حق بات بسااوقات مہنگی پڑ جاتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کیسا ہی درویش منش کیوں نہ ہو، وزیر اعلیٰ ہی ہوتا ہے۔ نازک مزاج شاہاں تابِ سخن نہ دارند مغلوں کے زمانے میں مشہور تھا جس کا ملتان مضبوط ہوتا ہے اس کا دلی مضبوط ہوتا ہے۔ فی زمانہ جو ملتان مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ لاہور کمزور کر بیٹھتا ہے۔ آپ بوریا بستر باندھ لیں!
وائیں صاحب نے تو کوئی خاص محسوس نہ کیا لیکن سیکرٹریٹ کے دروبام لرز اُٹھے۔ ایک بھونچال آ گیا۔
کئی جبینیں شکن آلود ہوئیں
آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا!
میری جواب طلبی ہو گئی۔ وزیر اعلیٰ کی شان میں گستاخی کیوں کی ہے؟ میں انہیں کیا جواب دیتا! کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی تھا۔ سو کہہ دیا۔ جواباً لکھا
ؔیہ دل جو قحطِ وفا سے غریب ٹھہرا ہے
میری زباں کو زرِ التماس کیا دے گا
محترمہ فاطمہ قمر، عزیز ظفر آبادی صاحب وہ دیگران جونفاذ اردو کے سلسلے میں تگ و دو کر رہے ہیں وہ قابل تحسین ہے۔ بظاہر کمزور آوازیں بھی ایک نہ ایک دن کانوں کے پردے پھاڑ دیتی ہیں۔ کوشش کبھی رائیگاں نہیں جاتی! چوتھی جماعت میں منشی لالہ پڑھایا کرتا تھا …؎
جو پتھر پہ پانی پڑے متصل
تو بے شبہ گھس جائے پتھر کی سل
رہوگے اگر تم بھی یوں مستقل
تو اک دن نتیجہ بھی جائے گا مل
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024