منگل14 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 12؍ نومبر2019 ء
پنجاب تعلیمی بورڈ نے فیسوں میں اضافے کا شیڈول جاری کر دیا
پنجاب بورڈ کے زیر اہتمام داخلہ اسناد، رجسٹریشن و امتحانی فیسوں میں اضافہ کا جو نیا شیڈول جاری ہوا ہے اس سے والدین کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔ مہنگائی کا اثر ہر چیز پر ہوتا ہے…شاید اسی فارمولے کے تحت حکومت نے طلبہ سے بھی حصہ وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر حکومت بھول رہی ہے کہ یہ سارا اضافہ غریب والدین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ بورڈ والے پہلے کون سا کم کما رہے ہیں۔ پیپر ری چیکنگ کے نام پر ان کا دھندا عروج پر ہے۔ اپنی کوتاہیاں چھپانے کے لیے صرف نمبر چیک کرکے ٹوٹل کرتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے کہ دیکھا جائے کہ ممتحن حضرات نے نمبر لگاتے ڈنڈی تو نہیں ماری مکمل حل شدہ سوال کے پورے نمبر دئیے کہ نہیں۔ اصل کام پر توجہ نہیں دی جاتی الٹا طلبہ کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا جاتا ہے۔ والدین مجرموں کی طرح دفتر کے باہر اذیت میں رہتے ہیں کہ کیا بنا۔ اب فیسوں میں اضافہ کی وجہ سے ہر سال لاکھوں طلبہ و طالبات کی طرف سے اضافی رقم بورڈ کے پاس آ ئے گی۔ یہ رقم کروڑوں سے آگے نکلتی محسوس ہو رہی ہے۔ نجی سکولوں پر تو فیسوں میں اضافے کے حوالے سے آہنی ہاتھ استعمال ہو رہا ہے تو پھر سرکاری اداروں پر بھی کوئی ہاتھ ڈالا جائے۔ امتحانی فیسوں میں داخلہ فیسوں میں اضافہ پر کوئی روک لگائی جائے۔ اس سے عوام کو بھی فائدہ ہو۔ امتحانی فیس نہ ہوئی ٹماٹر، لہسن اور ادرک کے ریٹ ہو گئے جو دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور لوگ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
نابینا افراد کا احتجاج رنگ لایا۔ نوکریاں ملنے کی امید
کہتے ہیں طلب سچی ہو تو پھل ضرور ملتا ہے۔ اس لیے شاعروں نے بھی اس حوالے سے بہت کچھ لکھا مگر یہ جو اگر ہے تشنگی کامل تو پیمانے بھی آئیں گے والی بات سب پر بھاری ہے۔ اس وقت کئی طبقات دھرنوں کا میلہ سجائے بیٹھے ہیں۔ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کے بقول لاکھوں کا مجمع ہے مگر دیکھ لیں آج کتنے دن ہو گئے۔ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ لوگ بوریت مٹانے کے لیے کھیل کود کتنے دن جاری رکھ سکیں گے۔ موسم بھی نامہربان ہوتا جا رہا ہے۔ گھروں میں سردیاں گزارنا کئی فٹ برف میں رہنا آسان ہے کیونکہ گھر بذات خود ایک نعمت ہے۔ مگر گھر سے دور مسافرت میں معمولی سی سردی بھی اذیت دیتی ہے۔ اب کوئی نہ مانے تو اسے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ بات ہو رہی تھی لاہور میں نابینا افراد کے دھرنے کی جو بالآخر رنگ لاتا نظر آ رہا ہے۔ سننے میں آیا ہے کہ حکومت ان 85 کے لگ بھگ نابینا افراد کو ملازمت فراہم کرنے پر تیار ہو گئی ہے۔ لگتا ہے لاہور کی مال روڈ احتجاج کرنے والوں کے لیے خاصی خوش قسمت ثابت ہو رہی ہے۔ یہاں جو بھی آ کر بیٹھتا ہے وہ کامیابی کی نوید لے کر اٹھتا ہے۔ اسلام آباد کی بات علیحدہ ہے۔ وہ بے فیض شہر ہے حالانکہ فیض آباد کا اڈہ اور چوک اسے راولپنڈی سے ملاتا ہے۔ وہاں خان صاحب ہو یا مولانا ان کے دھرنے ہفتوں جاری رہیں۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ آئندہ دھرنا دینے والے شہروں کے سعد اور نجس ستاروں کے اثرات دیکھ کر دھرنے کا فیصلہ کر لیا تو ان کے حق میں اچھا ہو سکتا ہے۔
بادشاہی مسجد میں بارش کا پانی رسنے لگا
اب خدا جانے یہ کوتاہی حکومت کے کس کھاتے میں ڈالی جائے گی کیونکہ بادشاہی مسجد لاہور کا ہی نہیں پورے پاکستان کا تاج ہے۔ اس کی حفاظت اور دیکھ بھال میں کسی قسم کی رعایت نہیں ہو سکتی۔ اطلاعات کے مطابق اب اس کی چھت ٹپکنے لگی ہے اور دیواروں میں بھی پانی رسنے لگا ہے تو یہ خاصی خطرناک بات ہے۔ یہ جو بڑی بڑی تنخواہوں پر بادشاہی مسجد اور آثار قدیمہ کی دیکھ بھال والا عملہ متعین ہے کیا وہ مکھیاں مارنے کے لیے ہے، انہیں یہ پانی رستا یا ٹپکتا نظر کیوں نہیں آیا انہوں نے اس کی طرف توجہ کیوں نہ دی کہ ابتدائی مراحل میں اصلاح کر دیتے تو معاملہ اتنا خراب نہ ہوتا۔ اب بحریہ ٹائون والے ملک ریاض نے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ انہیں مسجد کی مرمت کا کام سونپا جائے وہ خانہ خدا کی مرمت کا سارا خرچہ اٹھانے کو تیار ہیں۔ دیکھتے ہیں چیف جسٹس کیا کہتے ہیں۔ ویسے شرم کی بات ہے ہمارے ہاں ہر کام پر کمیٹیاں بننے کی رسم بد موجود ہے۔ بادشاہی مسجد کی مرمت پر بھی کمیٹی بن گئی اس کے مقابلے میں محکمہ اوقاف والے آ کھڑے ہو گئے یوں یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہو گیا اور کام ٹھپ ہے۔ ہر جگہ سیاست بازی اور فنڈز ہڑپ کرنے کی حریصانہ سوچ کام خراب کرتی ہے۔ طاقتور گروپ جب خود کچھ نہیں کر پاتے دوسروں کو بھی نہیں کرنے دیتے ہیں۔ اب یہ خانہ خدا کا معاملہ ہے۔ کیا ان لوگوں کو خدا کا خوف بھی نہیں رہا۔ ملک ریاض کا جذبہ قابل تحسین ہے۔ ایسے لاکھوں پاکستانی اور بھی ہوں گے جو اس تاریخی مسجد کے لیے مال خرچ کرنے کو تیار ہیں۔ سوال سرکاری محکموں کا ہے وہ کیا کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
آصف زرداری کی بھی بیرون ملک روانگی کی باتیں
باتیں کرنے میں یا باتیں بنانے میں پاکستانیوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔ یا دہ گوئی سے لے کر قصہ گوئی تک جتنا زور بیان ہم قصوں کہانیوں اور افسانہ طرازی پر لگاتے ہیں اگر تعمیری کاموں پر لگائیں تو ہم مہذب قوموں والا عروج پا سکتے ہیں۔ مگر کیا کریں ایسا کرنا ذرا مشکل نظر آتا ہے۔ پہلے زمانوں میں سرائے خانوں میں چائے خانوں میں قصے کہانیاں سنائی جاتی تھیں جو ملکوں ملکوں پھیلتی تھیں۔ ہمارے ہاں پشاور میں تو قصہ خوانی کے نام سے باقاعدہ ایک بازار مشہور و معروف ہے۔ اس کے باوجود یہ بھی ا یک حقیقت ہے کہ انہی انسانوں اور کہانیوں میں سے کبھی کبھی کوئی مستند بات بھی زبان سے نکل جاتی اور زبان زدعام ہو جاتی۔ ایسی ہی ایک خبر آج کل گرم ہے جو شاید جلد ہی حقیقت میں بدلنے والی ہے۔ میاں نواز شریف کی طرح آصف زرداری کو بھی خرابی صحت کی وجہ سے جلد ہی ریلیف ملنے والا ہے۔ اب کوئی اسے ڈیل کا کرشمہ قرار دے دیا ڈھیل کا یہ اس کی مرضی ہے۔ کئی ارسطو قسم کے لوگ تو یہ تک کہہ رہے ہیں کہ ان دونوں کی طرف سے اربوں روپے خزانے میں جمع کرانے کے بعد انہیں این آر او دیا جا رہا ہے۔ آگے اوپر والا جانتا ہے کہ سچ کیا ہے۔ ’’زبان خلق تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘ معلوم نہیں ڈیل یا ڈھیل نہ دینے والی باتیں سچ تھیں یا اب یہ جو کچھ دیا جا رہا ہے یہ سچ ہے۔ عوام عجب مخمصے میںہیں۔ بقول شاعر یہ تو ’’دل کو روئوں کہ جگر کو پیٹوں‘‘ والی بات ہو رہی ہے کون سچا ہے کون جھوٹا یہ تو فسانے تراشنے والے بھی نہیں جانتے۔ اس لیے اس ضمن میں راوی خاموش ہے اور اسی میں اس کی یا سب کی بہتری ہے۔
٭٭٭٭٭