کرتار پور کوریڈور کا افتتاح ہو گیا، ایک سال سے کم عرصے میں پاکستان نے سکھوں سے کیا گیا وعدہ نو نومبر کوپوراکر دیا، گورو نانک کی یہ یادگار بھارتی سرحد سے چار میل دور ہے اور سکھ اپنے گورو کی یادگار کی طرف ایک دوربین سے دیکھتے تھے اورآنسو بہا کر واپس جانے پر مجبور تھے، عمران خان نے کہا کہ سکھوں کے لئے کرتار پور، مدینہ اور ننکانہ کی حیثیت مکہ کی سی ہے۔
یہ تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ سکھوں کی تمام مذہبی یادگاریں پاکستان کی حدود میں واقع ہیں مگر تقسیم بر صغیر کے بعد تمام سکھ بھارت چلے گئے۔ تقسیم کا یہ فارمولہ انگریز سرکار کا تیار کردہ تھا۔اور اس فار مولے میں ریڈ کلف نے ڈنڈی یہ ماری کہ فیروز پور، امرتسر، جالندھر اور پٹھانکوٹ کے مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان کی حدود سے نکال کر بھارت میں شامل کر دیئے جس سے وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی اور انسانی تاریخ کے خونریز فسادات بھی ہوئے۔ اور بھارت کوکشمیر پر قابض ہونے کا زمینی راستہ بھی مل گیا۔ اس تقسیم نے بھارت اور پاکستان کے درمیان اس قدر کشیدگی پید اکی کہ کئی بار جنگ کی نوبت آئی اور آج بھی کشمیر کی وادی میں اسی لاکھ مسلمان نو لاکھ بھارتی فوج کے بوٹوں تلے کراہ رہے ہیں۔ کرتار پور کی افتتاحی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے اس ظلم و ستم کی طرف اشارہ بھی کیا اور کشمیریوں کو آزاد کرنے کا مطالبہ بھی کیا تاکہ بر صغیر کے لوگ غربت کی سطح سے ا وپر آ سکیں اور خطے میں کھل کر تجارت ہو سکے۔ یہ مطالبہ بھارت سے آنے والے مہمان سدھو صاحب نے بھی کیا مگر ظاہر ہے اس ماحول کی تشکیل صرف پاکستان اکیلا نہیں کر سکتا۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے۔ اور بھارت کی حالت یہ ہے کہ جس روز پاکستان نے سکھوں کے لئے خیر سگالی کے جذبے کاا ظہار کیا،۔ اسی روزبھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی بابری مسجد کی جگہ ہندوؤں کو رام مندر کی تعمیر کے لئے بخش دی۔
بھارتی پنجاب کے سکھوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا اس قدر آسان کام نہیں تھا۔ آزادی کے دنوں میں سکھوں اور مسلمانوں کے مابین تلخیاں پیدا ہوئیں اور سنگین نوعیت کے فسادات ہوئے۔ بھارت کی ہندو حکومتوں نے سکھوں کو پاکستان سے بد ظن کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں مگر پاکستان کے دل میں کوئی کھوٹ نہ تھا۔ اس نے خالصتان کی تحریک میں بھی مثبت رویہ اختیار کیا جبکہ بھارتی حکومت نے ا س تحریک کو دبانے کے لئے طاقت استعمال کی اور سنت فتح جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو دربار صاحب امرتسر میں نشانہ بنانے کے لئے ٹینکوں کو استعمال کیا۔ سکھوںنے اس کا بدلہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو قتل کر کے لیا جس سے ہندوا ور سکھ تقسیم وسیع ہو گئی۔ پاکستان نے دور اندیشی کا مظاہرہ کیا اور سکھوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ انہیں ہر سال زیارتوں کے لئے ویزے جاری کئے ۔ اور اب سکھوں کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے کرتار پور راہداری کھول دی تاکہ یہ لوگ آزادانہ زیارت کے لیے آ جا سکیں۔ اور پوجا پاٹ کر سکیں۔ راہداری کے افتتاح اور نانک صاحب کے جنم دن کی تقریبات کے روز پاسپورٹ ا ور ویزہ کی شرط بھی ختم کر دی گئی اور انٹری فیس کی بھی چھوٹ دے دی گئی۔ پاکستان نے افتتاحی تقریب کے لئے بھارت کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کو بھی مدعو کیا جبکہ بھارتی پنجاب کے وزیر اعلی بھی تقریب میں موجود تھے جس سے نو نومبر کا دن تاریخ کے لئے یادگار بن گیا۔ یہ دن پہلے بھی تاریخ میں اس لئے یاد رکھا جاتا ہے کہ نو نومبر انیس سو نواسی کو برلن دیوار کو منہدم کیا گیا تھا جس سے مشرقی اور مغربی جرمنی کے لوگوں کے درمیان رکاوٹ دور ہو گئی اور یہ سلسلہ یہیں نہ رکا بلکہ پورا مشرقی یورپ، سوویت یونین کے چنگل سے ا ٓزاد ہو گیا اور آخر میں سوویت روس بھی پارہ پارہ ہو گیا، یوںنو نومبر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، پاکستان میں یہ اعتراض کیا گیا کہ نو نومبر تو علامہ اقبال کا جنم دن ہے لیکن جب اقبال خود کہتا ہے کہ مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا اور پھر انہوںنے بابا گورو نانک کو اپنے کلام میںزبردست خراج عقیدت بھی پیش کیا تو اس اعتراض میں کوئی وزن نہ رہا۔
پاکستان نے کرتار پور کوریڈور کو ایک تو سکھوں کی مذہبی ضرورت کے تحت کھولا ہے۔ دوسری طرف اپنی مشرقی سرحد پر امن کی فضا کو برقرار رکھنے کی دفاعی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ ظاہر ہے اگر سکھوں کو پاکسان سے کوئی شکائت نہیں ہو گی تو بھارت سرکار انہیں پاکستان کے خلاف استعمال نہ کر سکے گی۔
میں یہاں پاکستان اور اسرائیل کے رویوں کا بھی موازنہ کرنا چاہوں گا۔ اس میں شک نہیں کہ بیت المقدس دنیا کے تین مذاہب کے پیرو کاروں کے لئے اہم ہے۔ ان میں مسلمان، مسیحی اوریہودی شامل ہیں۔ مگر اس پر یہودیوں نے جبری طور پپر قبضہ کیا اور مسلمانوں کو ان کے گھروں ہی سے بے دخل کر دیا۔ بیت المقدس کا کوئی پر امن عالمی حل بھی نکالا جا سکتا تھا مگر اس کے لئے بڑے دل کی ضرورت تھی جس کا مظاہرہ پاکستان نے کیا ہے۔ پاکستان بھی اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پہ قائم رہ سکتا تھا کہ ا سے سکھوں کے متبرک مقامات آزادی ہند کے فارمولے کے تحت ملے ہیں، ان پر پاکستان نے جبر سے قبضہ نہیں کیا مگر ہم نے انصاف اور خیر سگالی سے کام لیا کیونکہ ہمارا مذہب ہمیں اقلیتوں کے حقوق اور خاص طور پر ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا پابند بناتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ان اصولوں کو پیش نظر رکھا اور 72 برسوںمیں کسی وقت اورط کسی بہانے بھی سکھوں کی آمد و روفت کو نہیں روکا۔ پاکستان تو دنیا کی کئی تہذیبوں کا امین اور گہوارہ ہے ۔ یہاں ہڑپہ، موہن جو ڈرو اور ٹیکسلا کی تہذیبیںبھی پروان چڑھیںاور آج بدھ مت کے لوگ تو خاص طور پر ٹیکسلا کی زیارت کو آتے ہیں ۔ جاپان کی حکومت تو ٹیکسلا کے تاریخی آثار کی حفاظت میں خصوصی دل چسپی بھی دکھاتی ہے اور پاکستان کی خدمات کی معترف بھی ہے۔ اب کرتارپور کوریڈور کھول کر پاکستان نے سکھوں کا دل جیت لیا ہے۔
پاکستان نے اپنی بساط سے بڑھ کر کیا۔ اب دیکھئے اس کا جواب کس انداز میںملتا ہے۔ توقع رکھنی چاہئے کہ سب سے پہلے بھارت کی ہندو اکثریت کشمیری اقلیت کے ساتھ نرمی برتے اور انہیں سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق انصاف مہیا کرے۔ دوسرے پاکستان کی خیر سگالی کا جواب عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کی شکل میں ملنا چاہئے اور دنیا بھر میںمسلمانوں کو جس تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ سلسلہ ختم کیا جائے تاکہ یہ دنیا رہنے کے قابل بن سکے۔
کرتار پور کا جواب یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ پاکستان کی طرف سے سکھوں کو بھارت کے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔یا پاکستان خالصتان کی مہم کو آگے بڑھا رہا ہے، پاکستان نے تو خلوص نیت کے ساتھ قیام امن کی ایک کوشش کی ہے جسے پروان چڑھنا چاہئے۔ کرتا پور کو امن کی ایک کھڑکی سمجھنا چاہئے جو کرہ ارض کو امن کے گہوارے میں بدل سکتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024