شادیوں کا سیزن ہے اور فوٹو سیشن دھڑا دھڑ ہو رہے ہیں۔ کہیں ڈھول باجے ہیں تو کہیں سادگی ہے، کہیں مساجد میں نکاح کی روایت نظر آتی ہے تو کہیں شادی ہالز بھرے پڑے ہیں۔ بہرحال مشکل وقت میں بھی خوشیوں کا کچھ سامان ضرور ہورہا ہے۔ شادی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے کسی ذمہ دار کی ہو تو بہت لطف آتا ہے۔ ایک تو سادگی نظر آتی ہے دوسرا مذہبی روایات کو دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ویسے جماعت والوں کی طرز سیاست سے آپ لاکھ اختلاف کریں اس معاملے خود ان کو بھی نہیں پتہ چلتا کہ وہ کس طرز سیاست کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، سیاسی میدان میں وہ کس کے ساتھ ہیں کس کے مقابلے میں ہیں، کس کے حمایتی ہیں کس کے مخالف ہیں۔ سیاسی میدان میں اونچ نیچ اپنی جگہ لیکن عام زندگی میں وہ اپنی روایات سے جڑے اور سختی سے قائم نظر آتے ہیں اور یہی ان کی شادیوں کی تقریبات کا سب سے مضبوط پہلو ہے۔ ایسی تقریبات بہت جاندار، سادہ اور یادگار ہوتی ہیں۔ ایک اور اہم بات کہ جماعت والے ایسی تقریبات میں دل کی بات بھی دل کھول کر کرتے ہیں نرم لہجے میں سخت اپوزیشن والے بیان سننے ہوں تو کسی تقریب میں جا کر دیکھیں۔
گذشتہ دنوں منصورہ میں جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد اصغر کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ کی تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس موقع پر کئی اہم سیاسی شخصیات موجود تھیں۔ کئی سیاسی و صحافتی دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور ملکی سیاست اور حالات پر اہم گفتگو بھی ہوئی۔ ہر شخص موجودہ سیاسی حالات اور عام آدمی کے لیے مشکل ہوتی زندگی کی وجہ سے پریشان ضرور تھا لیکن سب شاید ہماری طرح بس اپنے آپکو برا بھلا کہنے کے سوا کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ خوشی کا موقع ہونے کے باوجود لیاقت بلوچ، حافظ محمد ادریس اور امیرالعظیم کی پریشانی نے حیرت میں اضافہ کیا۔ اس تقریب کی سب سے خاص بات امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا خطاب تھا۔ اس سے پہلے انہوں قرآن پاک کی تلاوت، نعت رسول مقبول پڑھنے کی سعادت حاصل کی اور کلام اقبال بھی پیش کیا۔ مولانا مالک نے نئے جوڑے کی خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے دعا بھی کی۔ حقیقی معنوں میں یہی وہ طریقہ ہے جو ہم سب کو اپنانا چاہیے۔ سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے ہمیں سادگی اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے بھی کوششیں کرنی چاہییں۔ یہ مال و دولت، شان و شوکت، جاہ و جلال، محلات، گاڑیاں، جہاز سب ظاہری اور وقتی ہیں۔ یہ دنیا کا مال ہے آج تک کسی کا ہوا ہے نہ کسی کا ہو سکتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمرانوں نے آج تک دو جمع دو چار کے چکر سے نکلنے ہی نہیں دیا اور پھر بناوٹی چیزوں کے پیچھے لگا کر اصل مقصد سے بہت دور کر دیا ہے یقیناً یہ نقصان کا راستہ ہے۔ اگر مال و دولت ہی کامیابی کی ضمانت ہوں تو ہر مالدار باعزت بھی ہو جب کہ ایسا نہیں ہے، اگر پیسہ ہی کامیابی اور آسائش کی ضمانت ہو کوئی مالدار ڈاکٹروں کے چکر نہ لگائے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہی سمجھنے کی بات ہے۔ دنیا کے کامیاب بزنس مین اپنی رقم کا بڑا حصہ فلاحی کاموں میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور ہم جمع کرتے کرتے قبروں میں پہنچ جاتے ہیں۔
سراج الحق گفتگو بہت کمال کی کرتے ہیں۔ وہ جب بھی بولتے ہیں تو ان کی آواز میں ایک درد مند پاکستانی کا دکھ باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ سراج الحق سے ہمارا تعلق خاصا پرانا ہے، انہیں کبھی مایوس نہیں دیکھا، ان کی سادگی اور ایمانداری پر بھی دو رائے نہیں ہیں۔ وہ ایماندار اور سادہ انسان ہیں۔ سخت باتیں بھی اسی سادگی میں کہتے ہیں۔
اجلے اجلے چہروں والے افراد ملکی حالات پر خاصے پریشان تھے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق، لیاقت بلوچ اور امیر العظیم سے ہونے والی گفتگو خلاصہ یہی ہے کہ عوام کی مشکلات میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مسائل ہیں لیکن بائیس کروڑ عوام کے مسائل کو حل کرنا انہیں ریلیف دینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کہنے لگے جیسے امریکہ کسی کے قابو میں نہیں آتا لگتا ہے ہماری مہنگائی بھی امریکہ سے منگوائی گئی ہے جو حکمرانوں کے قابو سے باہر ہے۔ اب پتہ نہیں اسے قابو کرنے کی کوششیں ہو بھی رہی ہیں یا نہیں اگر کوششیں ہو رہی ہیں تو نتیجہ کیوں نہیں نکلتا اور اگر مہنگائی قابو کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی تو یہ عوام پر ظلم ہے۔ جماعت اسلامی کے اکابرین یہ سمجھتے ہیں کہ جمعیت علمائے اسلام کے دھرنے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس احتجاج کی وجہ سے ملک میں کشمیر پر جتنی بات چیت ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو رہی۔ یہ اس مسئلے کا ایک پہلو ہے دوسرا پہلو اس سے بھی تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ کیا حکومت اس سلسلہ میں اپنا کردار موثر انداز میں نبھا رہی ہے۔ کیا وزارت خارجہ نے اپنا کام کیا ہے، کیا امور کشمیر سے جڑے حکومتی افراد نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ سب کچھ مولانا کے احتجاج پر ڈال دینا مناسب نہیں ہے۔ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر وزرا متحرک ہیں نہ کوئی مثبت سرگرمی نظر آتی ہے اگر مسئلہ کشمیر کہیں نظر آتا ہے تو وہ صرف وزیراعظم عمران خان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ہی نظر آتا ہے۔ کیا صرف ٹویٹ کر کے کشمیر آزاد کروایا جا سکتا ہے۔ یا پھر یہ صرف وزیراعظم کی ذمہ داری ہے یا پھر ان کے علاوہ کسی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جب بھارت کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے ہم نے اپنے پارلیمنٹیرینز کا کوئی وفد بیرونی دنیا میں نہیں بھیجا جو جائے اور دنیا کو حقیقت بتائے اور پاکستان کا موقف پیش کرے کیا یہ حکومت کی غفلت نہیں ہے۔ اہم ترین مسئلے کے حوالے سے ایسی سستی کو مجرمانہ غفلت بھی کہا جا سکتا ہے۔
جماعت اسلامی کے بڑے یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ اس سلسلہ میں اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومتی وزراء کہیں نظر نہیں آتے، نہ انتظامیہ کا کوئی کردار نظر آتا ہے نہ ہی حکومت فعال کردار ادا کر رہی ہے اس کوتاہی میں عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں اور تو اور ٹماٹر بھی تین سو روپے کلو ہو گیا ہے۔ آٹا، چینی، ادویات، سبزیاں اور پھل کچھ بھی عام آدمی کی پہنچ میں نہیں رہا۔
دعوت ولیمہ میں کئی اہم معاشرتی مسائل پر بہت اچھی گفتگو ہوئی۔ یہ گفتگو قطعا کرنٹ افیئرز کے شوز والی نہیں تھی۔سراج الحق، لیاقت بلوچ، امیر العظیم، حافظ محمد ادریس اور دیگر اہم شخصیات کی گفتگو اور پریشانی کا بوجھ لیے ہم رخصت ہوئے اور آج امانت حکومت تک پہنچا دی ہے۔
گزشتہ دنوں برادرم نصر اللہ ملک کی والدہ کا انتقال ہوا ہے۔ ان کی والدہ کی قرآن خوانی کے موقع پر حافظ محمد ادریس نے کہا کہ کسی گھر میں فوتگی ہو جائے تو اسکا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ہمیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے جو اپنی قیمتی شے سے محروم ہوئے ہیں۔ تعزیت کے لیے آنیوالوں کا خیال رکھا جائے لیکن جس طرح ہم تکلفات میں پڑتے ہیں کون جانتا ہے دکھوں مارے خاندان کو اور کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روایات اور رسومات کے بجائے حقیقی زندگی میں واپسی سے زندگی کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔
نصر اللہ ملک نے اپنی والدہ کی بہت خدمت کی ہے۔ آج وہ جس مقام پر ہیں، جتنی عزت پائی ہے یہ ساری کامیابیاں والدہ کی خدمت کی وجہ سے ہیں۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں ماں کی خدمت کو ہر مصروفیت اور ضرورت ہر اہمیت دی ہے۔ اللہ تعالی ان کی والدہ کی مغفرت اور درجات بلند فرمائے۔ آمین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024