ہزارہ ،تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کی خبر گیری کا مسئلہ
پاکستان جو اللہ پاک کی بے شمارنعمتوں سے کراچی سے خنجراب اور گوادرسے واہگہ تک مالا مال ہے تووہاں ہی پاکستان میںمہلک موذی مرض تھیلیسیمیا کے شکارایک لاکھ سے زائد مریضوں میں سے ہزارہ ڈویژن میں رجسٹرڈچھ ہزار جن میں سے ضلع ایبٹ آبادمیں چارسو رجسٹردمریض بچے انتہائی کسماپرسی کی حالت میں زندگی کے دن پورے کررہے ہیںاس حوالے سے ایبٹ آبادپریس کلب میں ایک مختصر سی تقریب میں چند ایک بچوں اورانکے والدین سے وساطت سے ملاقات اورانکے حالات وخیالات دیکھنے اورسننے کا موقع ملاجہاں یہ لوگ اس نیک دل انسان جنکا نام طارق تنولی ہے جوکراچی کے ایک معروف بزنس مین ہیں انکی وساطت سے ایک موومنٹ چلا کر سیو لائف تھیلیسیمیا چلڈرن موومنٹ کے پلیٹ فارم سے کسی حد تک ان بچوں اور ان خاندانوں کی معاونت کر کے دعائیں سمیٹ رہے ہیںپریس کلب ایبٹ آبادمیں آئے 22سالہ رومانہ بی بی،ننھی عروشہ بی بی دختر ناصر خان ،کیرل جمیل18سالہ ،عبدالہادی ،ننھا یتیم فیضان اورننھالے پالک بچہ زکاء اللہ ،طوبیٰ دختر شیرازودیگرسے ملاقات اوربات چیت سے معلوم ہواکہ ہزارہ بھرمیںکوئی سرکاری ہسپتال یا سنٹرایسانہیںجو ان بچوں کو کوئی سہولت فراہم کر سکے اورمہنگے ترین علاج اورکم وسائل والے والدین خون کی کمی اور اسکے بعدپیدا ہونے والی معذوری جیسی موزی مرض کے شکاراپنے ان تخت جگروں کوارمان بھری نظروں سے دیکھ دیکھ کرہرپل جیتے اورمرتے ہیں پشاورسے ہجرت کرکے اپنے لخت جگرفیضان کودوسرے بچوں کی طرح صحت منداورماں کاسہارا بنتے دیکھنے کی خواہش رکھنے والی اسکی ماںجوسلائی کڑھائی کرکے اسکا علاج کروارہی ہے اسکا کہنا تھا کہ ایک سرکاری ہسپتال میں جہاں اس مرض کی ادویات موجودتھی کسی کے ریفرنس سے بھیجا گیا مگروہاں موجود باریش ڈاکٹراوراسکے عملہ کا انتہائی تہک آمیزرویہ سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے اورادویات بھیک سمجھ کر دیتے ہیںایک اور بچے کی والدہ نے بتایاکہ ہم کسی طرح اپنا بندوبست کر کے علاج کے لیے جاتے بھی ہیں تووہاں انجیکشن لگانے اورسرنج تک کے پیسے مانگے جاتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ انکے پاس موجوداورانکی ذ مہ داری میں شامل ہوتاہے ایک ننھابچہ زکاء اللہ جو اپنی منہ بولی والدہ کے ساتھ آیا ہوا تھا اس خاندان کے ساتھ یہ ہواکہ بے اولادی کی وجہ سے میاں بیوی نے کسی سے بچہ گودلیا اور قدرت کی ستم ظریفی یا والدین کی آزمائش اللہ کو کرنی تھی وہ بچہ تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار نکل آیا اسکی والدہ جو اسے اٹھائے پھرتی ہے اسکا کہنا ہیں کہ ایک تو گھریلوحالات مہنگائی اور پریشانی اوپرسیاس مرض کا شکار بچہ زیادہ پیدل چل اور کھیل کودنہیں کر سکتا جب بھی علاج کے لیے باہرجاناہوتا ہے اسکو لے جانا بھی مسئلہ ہوتاہے حکومت یا کوئی غیر سرکاری ادارہ ان بچوںکوگھر سے ہسپتال لے جانے کی سہولت ہی مہیا کرے اس والدہ کاکہناتھاکہ ہمارے نصاب میں اور سکولوںکالجوں میں بچے بچیوں کواس مرض کے حوالے سے شعورو آگئی دی جائے تاکہ شادی سے قبل ہی معلوم ہو جائے کہ دومائینزجنکے شادی کے بعد پیدا ہونے والے بچے تھیلیسیمیامیجر کہلاتے ہیں پیدانہ ہوں ایبٹ آبادسے آئی ننھی پری عروشہ اپنے والدناصر خان کے ہمراہ تھی جوسفید پوشی دن گزار رہے ہیں واپڈا میں ملازمت کر کے گھرکا چولہا جلاتے ہیں انکا کہنا تھا کہ مہنگے علاج اور وقت کی کمی کے باعث ایسے بچوں کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے حکومتی سطح پر کوئی ادارہ ایسا نہیں جو مدد کرے ایسے میں ہارون تنولی اورطارق تنولی جیسے لوگ ہمارے لیے رحمت کا فرشتہ بن کر سامنے آتے ہیں18سالہ معصوم بچی کیرل اپنے والد جمیل کے ہمراہ تھی اسکا کہنا تھاکہ تکلیف دہ زندگی ہر وقت علاج اورتھکاوٹ ہم معاشرے میں دوسروں کے رحم و کرم پررہ گئے ہیںصوبائی حکومت اور مرکزی حکومت ہماری مدد کو آئے اورایبٹ آباد میں کوئی سرکاری سنٹر قائم کر کے مفت علاج کی سہولت دے کر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے دوسری طرف ان والدین اور بچوں کی زبانی معلوم ہواکہ ایوب میڈیکل کمپلیکس میں ہارون تنولی اورانکی ٹیم کی کاوشوںسے جب ایبٹ آبادمیں14مارچ کو جلال بابا آڈیٹوریم میں پہلی بار اس مرض کے حوالے سے بڑا پروگرام اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثارصاحب کی ایبٹ آباد آمدپر احتجاج کے بعد ایک وارڈکا قیام عمل میں لایا گیا جہاں تمام سہولیات دینی اور مکمل علاج کی یقین دھانی کروائی گئی جو چند ماہ تک ہواپھر نئے بورڈ آف گورنس کا قیام عمل میں لایا گیا اور وہ وارڈبھی تبدیلی کے نعرے میں تبدیل ہوکر ہوا ہوگئی اور بچے سڑکوں پررلنے لگے جبکہ اس وارڈاور جاپان حکومت کے تعاون سے ایک مکمل سیٹ جس میں جدید مشینری گاڑی اور سٹاف ایسے بچوںکے لیے موجود ہے مگروہاں سے ہتک آمیز رویئے ہمارے مقدر ہیں وہ ڈاکٹرز صاحبان ہسپتال سے پرائیویٹ اپنے دوکان کھول کر پیسے لے کر علاج کرتے ہیںانہی والدین اور دیگر زرائع نے انکشاف کیا کہ اس جدید مشینری کا استعمال کچھ اس طرح ہو رہا ہے کہ ہم لوگ بھیک مانگ کراورمشکل ترین حالات میںخون لے کر انکے پاس جاتے ہیں جہاں سے بھی یہ ظالم لوگ کمائی کرتے ہیںہم سے بھی سروس چارجز وصول کرتے ہیں اور اس خون سے ریڈ سیل نکال کر ہمارے بچوں کو لگا کر باقی خون پلازمہ اور پلیٹس جو گائنی اوردل کے مریضوںکی ضرورت ہوتی ہے انکو 15ہزارفی بوتل کے حساب دیا جاتا ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ تمام سہولیات ہم جیسے نادراغریبوں کو مفت میںملیں مگر ہم سے سرنج اور بوتل تک کے پیسے بھی وصول ہو رہے ہیںہارون تنولی کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ صرف ایک خاندان طارق تنولی صاحب کا ہے جو اپنی ذاتی حیثیت میں ادویات کراچی سے بھیجتے ہیںجو میں خود وصول کر کے تلاش کر کے ان نادرا لوگوں کودے رہا ہوں جبکہ حکومتی سطح پر کسی قسم کاکوئی تعاون نہیںسابقہ ڈپٹی کمشنر اورنگزیب خان1 نے ڈسٹرکٹ کونسل میں ایک کمرہ الاٹ کیا تھا کہ وہاں سے ان لوگوں کی ادویات اورراہنمائی کر سکوں مگر تاحال اس پرعمل درآمدنہیںہوا ادویات پریس کلب میں رکھ کریہاں سے ان بچوںکودے رہا ہوں ایوب میڈیکل کمپلیکس میں جو وارڈ اتنی محنت اورمشکلات کے باوجودقائم کروایا تھا اسکو ختم کرکے ان بچوں پرظلم کیا جارہاہے ہزارہ کے بچے ملک کے دیگر شہروں میں دربدر ہو رہے ہیں لیکن حکومت کو کوئی احساس نہیںاگر یہی حالات رہے تو دو کڑورمائینر تھیلیسیمیاکے پیدا ہونے والے بچوں میں سے تمام ملک اسکی لپیٹ میں آجائے گا۔
اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان ،وزیراعظم عمران خان ،بلاول بھٹوزرداری ،شہبازشریف،مریم نواز،مولانا فضل الرحمان،سراج الحق ودیگرتمام سیاسی و سماجی شخصیات اپنااپناکردار اداکرے ایبٹ آبادہزارہ اورپاکستان بھرکے ان نادرا ہتک مرض کے شکاربچوں اورانکے والدین کو تحفظ دیں اور انکے تما م علاج اور انکے دیگر اخراجات کی زمہ داری ریاست اٹھائے اور جاپان ودیگرممالک سے آئی مدد کا غلط استعمال کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے اورایوب میڈیکل کمپلیکس سمیت ہزارہ بھر کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں ان بچوںکے کئیر سنٹر اورخصوصی کاونٹر قائم کیے جائیں اللہ پاک ان بچوں کے طفیل وطن عزیزاور اسکے ہر بچہ کوسلامت تا حیات رکھے ۔(آمین)۔