سراب اور خواب
اہل مغرب کی ترقی کا راز حقیقت پسندی پر ہے۔ ان لوگوں کی ذہنی حالت و کیفیت زمینی حقائق کے مطابق لائحہ عمل طے کرتا ہے۔ یہ لوگ ’’سائنٹیفک طرز فکر و عمل‘‘ کی بدولت تسخیر کائنات کر رہے ہیں اور زندگی کے معاملات کا حل استدلائی اور عملی انداز سے ڈھونڈتے ہیں جبکہ ہنوز افریقی اور مشرقی ممالک روایات و رسومات و حکایات کے دام ہمرنگ زمین میں اسیر ہیں۔ انگریزی‘ فرانسیسی اور جرمن ادبیات انسانی مسائل کا احاطہ کر کے نوجوان نسل کو ترقی اور خوشحالی کی راہیں دکھا رہی ہے جبکہ ہماری ادبیات ابھی تک ہجرو وصال اور لب و رخسار کے زندان خوش نما میں مقید ہے۔ 2014ئے سے 2016ء تک پیمرا شکایات سیل اسلام آباد کا ممبر تھا۔ میں نے ٹی وی اینکرز اور مالکان کے خلاف عوامی شکایات سنتے ہوئے اکثر ان سے گزارش کی کہ ٹی وی ڈراموں اور پروگراموں کو مثبت بنائیں۔ نئی نسل کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار اور نظریات سے آگاہ کریں۔ ٹی وی ڈراموں میں ساس بہو کے جھگڑے‘ میاں بیوی کی ناچاقیاں اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی والدین کے خلاف بغاوت کے علاوہ سماجی برائیاں جن کا ہماری ثقافت اور مذہب سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ دکھانے کی بجائے تعمیری اور اخلاقی ڈرامے دکھائیں۔ افسوس صد افسوس صحافت اب عبادت کی بجائے تجارت بن چکی ہے۔ ڈراموں میں ہر گھر کا مسئلہ لڑکی یا لڑکے کی شادی دکھایا جاتا ہے جیسے بس یہی ایک مسئلہ ہے جو ساری قوم کا اولین مسئلہ ہے۔ دراصل ہم ابھی خواب و خیال کی دنیا سے باہر نہیں نکلے۔ بقول افسر ساجد
ہم سرابوں سے بہلتے رہے افسر ساجد
ہم نے خوابوں کو حقیقت سے بھی برتر جانا
خواب و خیال اور سراب نے ہمیں خسر الدنیا و الآخرہ کی تصویر بنا دیا ہے۔ غالب نے تو یہاں تک کہہ دیا ’’ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے‘‘۔ ہم سوتے میں بھی خواب دیکھتے ہیں اور جاگتے میں بھی خواب دیکھتے ہیں۔ خواب دیکھنا بری بات نہیں۔ آئیڈل ازم ہی ارتقاء کی ضمانت ہے مگر زندگی کو صرف خواب و خیال کی نذر کر دینا اور نقشہ بنا کر عمارت کی تعمیر نہ کرنا حماقت ہے۔ میرا ایک شعر ہے ؎
ہمیں تو جعفری خوابوں سے فرصت ہی نہیں ملتی
ہمیں سونے نہیں دیتے ہمیں بیدار رکھتے ہیں
اگر خواب احساس ذمہ داری ہے تو بیداری ہے اگر یہ نیم خوابی اور بدحواسی ہے تو بیماری ہے پاکستان میں حقائق سے نظریں چرائی جاتی ہیں۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹس دانشور ہیں۔ صحافی‘ ادیب‘ استاد‘ مولوی اور سیاستدان ذاتی مفاد کے غلام ہیں تو پھر قومی مفاد کی بات کون کرے گا۔
کم ظرف انسان کی عزت کرنا عزت کی بے عزتی ہے اور باظرف انسان کی عزت کرنے سے انسان کی اپنی عزت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ متکبر انسان نہ صرف یہ کہ وہ ذہنی مریض ہوتا ہے بلکہ وہ توہین انسان کر کے شرک کا بھی شکار ہوتا ہے۔ متکبر اسمائے الہیٰ میں سے ایک اسم ہے جو صرف اسے ہی جچتا ہے۔ حدیث رسولؐ ہے کہ متکبر سے ایسے ملو کہ اس کا تکبر ٹوٹ جائے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ عاجزی خدا کا عطیہ ہے لیکن لوگ عاجز انسان کو کمتر و کمزور گردانتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ملنسار‘ خوش اخلاق اور عاجز انسان لوگوں کے سروں پر نہیں دلوں پر حکومت کرتا ہے۔ پاکستان میں انگریز کی نخوت و رعونت کا دیمک خوردہ نظام ابھی تک ہمارے سروں پر مسلط ہے۔ ’’نوکر شاہی‘‘ اپنے آپ کو ’’افسر شاہی‘‘ سمجھتی ہے۔ چند دن قبل ایک دیرینہ دوست سے ملاقات ہوئی جو وفاقی سیکرٹری حکومت پاکستان ہیں۔ وہ دوران گفتگو حاکمیت کا عندیہ دیتے رہے۔ بے تکلفی کی بدولت میں نے ان کی شان افسری پر ضرب کلیمی لگاتے ہوئے کہا کہ حکومت وزیراعظم اور اس کی کابینہ ہوتی ہے جو حکومتی امور کے فیصلے کرتی ہے اور ملازمین کو ان فیصلوں پر عملدرآمد کروانا ہوتا ہے‘ ملازم حکومت نہیں ہوتا‘ ملازم ملازم ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ لعنت اس لئے ہمارے سروں پر مسلط ہے کیونکہ عوام کی اکثریت غربت و جہالت کے آہنی شکنجوں میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کا ناجائز فائدہ مراعات یافتہ طبقہ اٹھاتا ہے۔ یہ بات صرف سیاستدانوں یا حکمرانوں کی نفسیات تک محدود نہیں بلکہ اس نفسیاتی کیفیت یا تربیت کے اثرات شاعروں‘ ادیبوں اور دانشوروں کی ذہنی ہئیت و ساخت پر بھی نمودار ہوتے ہیں۔ انگریزی زبان کا محاورہ ہے کہ ’’اسلوب انسان ہے‘‘۔ یعنی جب ایک شاعر یا نثر گار تخلیق کرتا ہے تو اس کا اسلوب تحریر اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ادیب اور شاعر کیسے الفاظ‘ تراکیب‘ تلمحیات‘ تشبیہات اور افکار کی تکمیل مراحل زندگی کی تعدیل سے ظہور پذیر ہیں۔ انسان کا پیدائشی ادیب و شاعر ہونا بجا لیکن ’’اسلوب یا طرز تحریر تعلیمی و معاشرتی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ہئیت کا بھی مسئلہ و مرحلہ ہے۔ طرز نگارش انفرادیت کو اجاگر کرتا ہے۔ میر اور سودا کے زمانے میں دہلی میں چار ہزار شعراء تھے مگر مرنے سے پہلے ہی مر گئے کیونکہ وہ ادبیات میں انفرادیت کی منزل پر براجمان نہ ہو سکے اور صاحبان اسلوب نہ تھے۔ غالب صاحب اسلوب تھا آج بھی زندہ تابندہ ہے۔ سید عابد علی عابد کی کتاب ’’اسلوب‘‘ اور گوپی چندنارنگ کی کتاب ’’ادبی تنقید اور اسلوبیات‘‘ اس موضوع پر معروف کتب ہیں لیکن علی اکبر ناطق کی کتاب ’’ھئیت شعر‘‘ اس موضوع پر فکر انگیز تصنیف ہے۔ اس کتاب میں اسلوب کیا ہے اور اسلوب کیسا ہے پر علمی و استدلائی بحث ہے اور علامہ اقبال کی شاعری کا اسلوبی ہئیت و ساخت پر بے مثال تجزیہ ہے۔ عصر حاضر میں اقبال اور فیض احمد فیض صاحب اسلوب شاعر مانے اور گردانے جاتے ہیں۔ اسلوبی انفرادیت کے ساتھ نظریہ اور پیغام بھی ضروری ہے۔ اسلوب جسم اور پیغام روح ہے۔ فلسفہ خودی علامہ اقبال کا پیغام ہے۔ خودی کو نئے معانی دئیے۔ اسے خودستائی سے خودداری بنا دیا۔ انسان کی نفسیات کی مثبت تعمیر و تشکیل ہی عظمت انسان ہے۔ شاعروں کے بارے میں یہ عمومی تاثر ہے کہ وہ خواب و خیال کی دنیا میں رہتے ہیں ۔صحراؤں اور سرابوں میں صدائے جنون بلند کرتے ہیں۔حقیقت سے دور اور چراب تصورات مغمور ہوتے ہیں لیکن یہ خیال خام ہے ,الزام ہے۔بہتان ہے۔شیکسپیئر ،رومی،والٹ و ٹمن،اقبال،جوش اور فیض کی شاعری خوابوں اور سرابوں کی نہیں بلکہ حقیقتوں اور صداقتوں کی شاعری ہے اردو شاعری میں خواتین نے جہاں عشق و محبت ،وصل و فراق اور گل و بلبل کا تذکرہ کای ہے وہاں زندگی کے مسائل اور تلخ حقائق کا بھی مذکورہ ہے۔جین آسٹن نے خاندانی اور مقامی ماحول کا تذکرہ کیا جو ایک آفاقی حیثیت اختیار کرگیا۔ڈیرہ غازی خان کی لیڈی ڈاکٹر محترمہ نجمہ شاہین کھوسہ نے خوابوں اور سرابوں کا زندہ حقائق کے روپ میںپیش کرکے شاعری کو چار چاند لگادیئے ہیں وہ جہاں خواتین کی جسمانی تکالیف کو بحیثیت ایک گائنا کالوجسٹ دور کرتی ہیں اور زچہ بچہ کو مسرت کی نوید سناتی ہیں وہاں وہاں ایک شاعرہ اور دانشور کے روپ میں ذہنوں کی بالیدگی اور انسانی جذبات کی پاکیزگی کو نئی زندگی و روشنی بھی عطا کرتی ہیں ۔ان کو اب تک شاعری کے چار مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔’’پھول سے بچھڑی خوشبو‘‘میں آنکھیں بندرکھتی ہوں اور شام ٹھہرگئی۔پھول،خوشبواور تازہ۔نجمہ شاہین کی شاعری میں جذبہ محبت آتش سوزاں اور چشم گریاں کا آئینہ دار ہے۔کلام میں سادگی،بے ساختگی،برجستگی، روانی اور جولانی ہے۔امیر خسرو اور فیض احمد فیض کی عنائت ان کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے ایک غزل میں کہتی ہیں
؎کیا خبر تھی ریگزاروں میں گزر جائے گی حیات
یہ سفر دشوار سے دشوار تو ہوجائے گا
ایک انٹرویو میں اپنی ذات اور شاعری کے حوالے سے یوں اظہار خیال کرتی ہیں ’’شاعری میری ذات کا اظہار بھی ہے اور شکست و ریخت کا شکار ہونے والے اس نجمہ شاہین کے کام کا خاصہ و اثاثہ ہیں۔داغ ہجراں کا نوحہ یوں لکھتی ہیں؎
چھوڑ یہ بات ملے زخم کہاں سے تجھ کو
زندگی اتنا بتا کتنا سفر باقی ہے
نجمہ شاہین زندگی کی گھٹن سے بے زار اور روایات کہنہ سے برسرپیکار ہے۔سرائیکی کے خطے میں عورتوں کی مجبوریوں کو اپنی غزلیات اور نظموں میں بیان کرکے ان کے غم کو آفاقی غم بنادیا ہے۔عورت آج بھی سماج میں باندی ہے۔یہ اندھیر نگری ہے۔یہ آندھی ہے ۔آزادی نسواں آرزوئے شاعرہ ہے۔انصاف وعدل کی علم دار اور احترام انسانیت کی پکار نجمہ شاہین کا احتجاج یہ شعر ہے؎
پھر مصر کے بازار میں نیلا ہوا کیوں
اے عشق بتا تیرا یہ انجام ہوا کیوں