ہرن کا بچہ اور بھیڑیا
سعودی عرب کے جانے بچانے معروف صحافی جمال خاشغجی گزشتہ دو اکتوبر کو استنبول سے لاپتہ ہوگئے پرائی شادی میں عبداﷲ دیوانہ امریکہ نے سعودی عرب پر الزام لگا دیا ہے کہ جمال استنبول میں سعودی سفارت خانے گئے اور ان کو قتل کر دیا گیا ہے جبکہ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ وہ سفارت خانے سے چلے گئے تھے جمال کچھ کاغذات لینے سفارت خانہ گئے تھے اس معاملہ نے اتنا طول پکڑا کہ بین الاقوامی سطح پرچھا گیا دنیا نے اس واقعہ کی مذمت کی امریکہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر جمال کے قتل کی خبر درست ہے تو اس کی سخت سزا دی جائیگی۔
بہرحال اس معاملے کی پرتیں دھیرے دھیرے کھل رہی ہیں ٹرمپ آج کل سعودی عرب سے ناراض ہیں اس لئے اس مسئلہ کو جان کر ا چھال کر دھمکیاں دے رہے ہیں اور یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمارے بغیر سعودی بادشاہت دو ہفتے بھی نہیں چل سکتی حالانکہ سعودی عرب تو تب بھی تھا جب امریکہ کا وجود بھی نہیں تھا امریکہ کو اصل غصہ جمال کا نہیں بات کچھ اور ہے ایک توامریکہ کہ یہ تکلیف ہے کہ سعودی عرب سی پیک میںشامل ہو گیا ہے دوسرا سعودی عرب اپنی سیکورٹی امریکہ کی بجائے پاکستان سے لینا چاہتا ہے کیونکہ ٹیکنالوجی میں پاکستان بھی اب کسی سے کم نہیں ہے اور ماضی میں ضیاء کے دورحکومت میں پاکستان سعودی عرب کی حفاظت بھی کر چکا ہے پاکستان کے پاس دنیا کی نمبر ون آرمی ہے اور حال ہی میں پاکستان نے U.A.E سے معاہدہ کیا ہے کہ پاکستان اسے ڈرون فروخت کرے گا کیونکہ پاکستان کے ڈرون سب سے اچھی کوالٹی کے ہیں ان حالات میں امریکہ صحافی جمال کا ایشو بنا کر دھمکا رہا ہے حالانکہ دنیا میں روزانہ صحافی مرتے ہیں لیکن امریکہ کی سوئی جمال پر اس لئے ہے کہ اس کے اپنے پس پردہ مفادات ہیں حالانکہ جمال امریکی شہری بھی نہیں ہے۔
جمال خاشغجی کی گمشدگی ترکی میں ہوئی ہے اس لئے ترک سرکار بھی تفتیش کر رہی ہے حال ہی میں ترکی نے سعودی سفارت خانہ کی چھان بین بھی کی ہے ٹرمپ کے خارجہ سیکرٹری سعودی عرب اور ترکی کے دورے پر بھی گئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جمال کے قاتل بھی قاتل کی تلاش میں لگے ہیں بہرحال حقیقت تک پہنچنا آسان نظر نہیں آ رہا جو کچھ بھی ہوا ہے گہری منصوبہ بندی لگتی ہے اور قتل کا دعویٰ تب ثابت ہو سکتا ہے جب جمال کی لاش برآمد ہو گی امریکی میڈیا نے سعودی عرب کے خلاف مسلسل پراپیگنڈہ شروع کیا ہواہے۔ یورپی یونین بھی حقیقت سامنے لانے کا مطالبہ کر رہی ہے اکثر ممالک ایسا ہی مطالبہ کر رہے ہیں۔
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک صحافی کی گمشدگی نے معاملے کو پراسرار بنادیا ہے اور اس میں سامراجی طاقتوں کی بہت بڑی سازش کی بو آ رہی ہے کیونکہ ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کہ جمال خود امریکہ میں رہائش پذیر تھے اور سعودی حکومت کے خلاف بولتے رہتے تھے اور واشنگٹن پوسٹ اخبار سے متعلق تھے ایسے لوگوں کو امریکہ ہمیشہ ہی اپنے ملک میں پناہ دیتا آیا ہے تاکہ وقت آنے پر ان کو استعمال کیا جا سکے۔
مثال کے طورپر ترکی سے فرار فتح اﷲ بھی امریکہ میں رہ رہا ہے اور کچھ عرصہ پہلے ترکی کی بغاوت میں بھی اس کے شامل ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں ایسے لوگوں کو اپنے ملک میں امریکہ اپنے مفادات کے لئے پناہ دیتا رہا ہے ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ صحافی جمال نے اگر سفارت خانہ جانا تھا تووہ امریکہ میں موجود سعودی سفارتخانہ سے بھی کاغذات لے سکتے تھے پھر وہ اس کام کے لئے ترکی کیوں گئے ایسے بہت سارے سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہوں گے تاکہ اصل ہمدرد قاتل بے نقاب ہو سکیں۔ آج مجھے کہانی یاد آ رہی ہے۔ ایک ہرن کا بچہ ندی کنارے پانی پی رہا تھاکہ ایک بھیڑیا آ گیا بولا تم نے مجھے گالی دی تھی ہرن کا بچہ بولا کب بھیڑیا بولا پچھلے سال ہرن بولا لیکن میری تو عمر صرف چھ مہینے ہے میں نے گالی پچھلے سال کیسے دے دی بھیڑیا بولا پھر وہ تمہارا بھائی ہو گا یا کوئی رشتہ دار ہو گا یہ کہہ کر بھیڑیا نے پنجہ مارا اور ہرن کے بچے کو کھا گیا کچھ اس سے ملتے جلتے حالات دنیا میں ہیں۔