ملک و قوم کو بحرانوں سے بچانا اشد ضروری ہے !
ماہر نفسیات انتھونی سٹیوینز نے کہا تھا کہ جنگیں پارلیمینٹ یا فوجی ہیڈ کواٹرز میں نہیں بلکہ انسانی ذہنوں سے شروع ہوتی ہیں ۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسروں کے خلاف جنگ لڑنے کا محرک انسان کے اندر موجود ہوتا ہے جسے تحریک تب ملتی ہے جب انسان کو یہ باور کروا دیا جائے اولاً یہ کہ اس کی حق تلفی ہو رہی ہے دوئم یہ کہ اس کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر کوئی بھی پشیمان نہیں ہے لہذاا پنے حق کو چھیننے کے لیے وہ جو بھی کرے گا وہ جائز اور بر حق ہوگا ۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اس جذبے کی بالیدگی بنی نوع انسان کے لیے واقعی خطرناک ہے تو اس کا جواب ہمیں نسلی ارتقا کے ماہرین سے یہ ملتا ہے کہ جنسیت کی طرح جارحیت بھی ہر نوع کی بقا کے لیے نا گزیر ہے ۔جارحیت انسان میں دھونس بازی اور آگے بڑھنے کی تحریک اجاگر کرتی ہے اسی جارحانہ رحجان کی وجہ سے انسان طاقت ور کو ہرا کر خوش ہوتا ہے اور اس کا آغاز سکول سے ہی نمبر ون پوزیشن کے حصول کی کاوش سے ہو جاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ زیست کی پر پیچ پگڈنڈیوں پر بھاگتے‘ بل کھاتے مطلوبہ مقام تک پہنچ جاتا ہے پھر معاشرتی ضروریات کے لیے اسے جارحانہ ردعمل اپنانا پڑتا ہے جیسا کہ اپنے لیے دستیاب جگہوں پر گھر بنانا اور معاشی ضروریات اور کاروبار زندگی کے لیے ذاتی کاروباری مرکز قائم کرنا ۔۔اس کی سادہ مثال ہم بھکاری کی زندگی سے بھی لے سکتے ہیں کہ بھکاریوں نے بھی علاقے مختص کر رکھے ہیں اور نئے آنے وال کو اپنی جگہ بنانے کے لیے اپنی طاقت اور ہمت دکھانا پڑتی ہے ۔ یہی برتری اور غالب آنے کی خواہش ہی ایک فرد کو رہنما یا قائد بناتی ہے ۔درج بالا مثال سے واضح ہے کہ جارحیت چھوٹے گروہ کا بڑے گروہ کے خلاف ایسا ردعمل ہے جو طاقت کے توازن میں کمی کی صورت میں احساس محرومی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے جس میں مذکورہ شخص خود کو یا دوسروںکو نقصان پہنچاتا ہے اس جارحانہ ردعمل میں فرد کی مرضی شامل نہیں ہوتی کیونکہ اختیار کیے جانے والے تمام طریقے لاشعوری ہوتے ہیں کیونکہ فرد کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں توڑ پھوڑ کرنا ، گالیاں دینا ، مذاق اڑانا ،طنز کرنا اورٹھوکریں مارنا شامل ہے مگر جب وہ براہ راست اپنے حریف کو نقصان نہیں پہنچا سکتا تو بد تہذیبی اور تخریب کاری پر اتر آتا ہے جس سے رفتہ رفتہ خود اپنے اندر وہی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ ایک جارح میں ہوتی ہیں یعنی مظلوم خود ظالم بن جاتا ہے اور اگر وہ ایسا بھی نہ کر سکے تو انتقام کی آگ میں خود بھی جل جاتا ہے اور دوسروں کو بھی جلا دیتا ہے ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ فی زمانہ بالا دست طبقوں کے جارحانہ عمل پر کوئی بات نہیں کرتا جبکہ کمزور طبقوں کے اسی جارحانہ ردعمل کوجہالت، تشدد ،جارحیت اور دہشت گردی کا نام دے دیا جاتا ہے ۔جیسا کہ بین الاقوامی طور پر ہر قسم کی جارحیت موجود ہے ۔بھارت کا کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنا ، برما کا برمی مسلمانوں پر زمین تنگ کرنا ،امریکہ کا محض ایک شخص کی تلاش میں افغانستان پر تسلّط جما لینا ،عراق میں مہلک ہتھیاروں کی تلاش کا بہانہ بنا کر عراقی شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجانا اور بالآخران کے تیل پر قبضہ کرنا ۔اسرائیل کا لبنان پر حملہ کرنا ، امت مسلمہ کے لیے تو ہر جگہ مظالم کا ختم نہ ہونیو الا سلسلہ ہے جو کبھی رکتا نظر آتا ہی نہیں مگر ان پر دنیا کے سبھی منصف خاموش ہیں ۔۔جیسا کہ آج کل یمن جل رہا ہے تو وزیراعظم پاکستان کی خواہش ہے کہ وہ یمن اور سعودی عرب کے درمیان ثالث کا کردار ادا کریں بلاشبہ یہ اچھی سوچ ہے اور مسلمانوں کو مضبوط طاقت بن کر ابھرنا ہوگا ۔سمجھ نہیں آتی مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے کونسے ابابیلوں کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ سابق ترک وزیراعظم نجم الدین اربکان نے کہا تھا مسلمان اس بات کے منتظر ہیں کہ ’’ابابیل ‘‘آکر اسرائیلیوں کا خاتمہ کریں ۔اللہ کی قسم ! اب کی بار اگر ابا بیل آئیں تو وہ کسی دیگر پر نہیں بلکہ ہم مسلمانوں پر کنکر برسائیں گے ۔ہم وہ لوگ ہیں کہ جو اپنوں سے لڑتے ہیں یہی وجہ ہے کہ
وہ تین سو تیرہ تھے تو لرزتا تھا زمانہ
آج ہم کروڑوں ہیں اور کرتے ہیں غلامی
وجہ یہی ہے کہ ’’گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی ‘‘ جب نظریہ باقی نہ رہا‘ تشخص مشکوک ہوگیا ( جاری ہے)