ایک بزرگ مسلم لیگی رہنما بدرالزمان ورک کا اصرار ہے کہ جو قومیں اور ریاستیں اپنی بنیادی اساس سے منہ موڑ لیں۔ اپنے مشاہیر اور محسنوں کو فراموش کر دیں ۔ اپنے ماضی سے ناطہ توڑ لیں تو ان کا حال بد حال اور مستقبل محال و و بال ہوتا چلا جاتا ہے ۔یہ حقیقت اظہر من شمس ہے کہ وطن عزیز آج جس پسپائی وبحرانی کیفیت سے دوچار ہے اس کا سبب بھی عظیم اسلامی اقدار و مشرقی روایات سے روگردانی محسن فراموشی سے عبارت ہے ۔ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ جس اقبال نے ہمیں صرف آزادی کا تصور ہی نہیں بلکہ ایک جغرافیہ کواسلامی ریاست کا تعین کرتے ہوئے اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک اعلیٰ بصیرت اور بلند حوصلہ قیادت کی نشاندہی بھی اقبال نے کی وطن عزیز پر مسلط ہونے والے علمی و نظریاتی بونوں نے اس کے عظیم تصورات سے منہ پھیر لیا ۔ فکر اقبال کو تعلیمی نصاب سے ہی خارج نہیں کیا بلکہ یوم اقبال کی تعطیل ختم کرکے مغربی آقائوں کا حکم بجالایا ۔ ان نظریہ بیزار اور اغیار کے حاشیہ بردار نام نہاد رہنمائوں کی آنکھوں کو مغرب کی چکا چوند نے خیراں کر دیا ۔جس قومی زبان اور قومی لباس نے ہمیں ایک شناخت اور قوم کی شکل میں ڈھالا جس پر ہمیں ناز ہونا چاہیے تھا ان کم ظرفوں نے اسے مغلوب ہی نہیں کیا بلکہ اسے اپناتے ہوئے تضحیک کا اظہار کرتے ۔ پورے تدریسی نظام پر جبراً انگریزی مسلط کر دی گئی۔ایسی صورت میں جذبہ پاکستانیت اور وحدت ملت کی جگہ علاقائی لسانی نسلی و مسلکی گروہوں کا قبضہ عام ہوتا جا رہا ہے ۔
قحط الرجال کے ان اندھیروں میں چند دیوانے فکر اقبال کی شمع اٹھائے قومی اقدار کے تحفظ اور احیاء کیلئے سرگرداں دکھائی دیتے ہیں ۔ حسب روایت امسال بھی قومی زبان تحریک نے یوم اقبال منانے کا اہتمام کیا ۔ صبح دس بجے سابق اکائونٹنٹ جنرل پنجاب جمیل بھٹی، ملک یوسف فاروق ایڈوکیٹ ، ماہر تعلیم جاوید چودھری ، شیخ حنیف قیصر ، پروفیسر عدنان عالم، انجینئر فیصل اکبر، محمد احمد، مولوی محمد الیاس اور راقم الحروف وفد کی شکل میں گریٹر اقبال پارک پہنچے جہاں پہلے قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظ جالندھری کے مزار پر فاتحہ پڑھی بعد ازاں حکیم الامت شاعر مشرق اور مصور پاکستان حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے مزار اقدس پرحاضر ہو کر احسان مندی اور شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ فکر اقبال سے قوم میں دوبارہ بیداری کی لہر اور آزادی کی قدرو قیمت پیدا کرنے کا عہد کیا ۔اسی روز تین بجے سہ پہر 113سی قرآن سنٹر ماڈل ٹائون میں پاکستان قومی زبان تحریک لاہور کے زیر اہتمام ایک پروگرام بعنوان " مصور پاکستان اور قومی زبان"منعقد تھا ۔ تلاوت کلام اللہ کا شرف حافظ محمد اسمعیل اور نعت رسول اللہؐ کی سعادت وقار عظیم کے حصے میں آئی۔ حرف آغاز کرتے ہوئے جمیل بھٹی نے کہا کہ قرآن و سنت کے بعد روشنی کا منبع ہمارے لئے حضرت علامہ اقبال تھے لیکن بدنصیبی کہ ہم نے ان کے فکرو فرمودات سے استفادہ کرنے کی بجائے اسے طاق نسیاں پر رکھ دیا ۔محترمہ فاطمہ قمر نے کہا کہ ہم نے قومی مشاہیر خصوصا حضرت علامہ اقبال کے فرمودات کو فراموش ہی نہیں کیا بلکہ ان کے یوم پیدائش پر ہونے والی تعطیل کو بھی ختم کر دیا ہے تاکہ مصور پاکستان اور ان کے نظریہ کو بھلا دیا جائے ۔ علامہ کی تعلیمات کو درسی نصاب میں شامل کئے بغیر ایک قوم کا تصور محال ہے۔ معروف ادیب بشیر احمد مرزا نے حضرت علامہ کے حوالے سے ایک افسانچہ پڑھا جسے سامعین بہت محظوظ ہوئے۔ حافظ محمد اسعمیل نے ترنم میں کلام اقبال سنا کر محفل کو گرما دیا۔ معروف ماہر تعلیم جاوید چودھری نے کہا کہ علامہ اقبال نے مسلمانان ہند کو آزادی اور علیحدہ کشور حسین کا تصور دیا جس کے باعث آج ہم آزادی کی نعمت سے سرفراز ہیں۔ ماہر لسانیات میاں ساجد علی نے کہا کہ جب قومی زبان کا ذکر ہو تو قومی شاعر حضرت علامہ کا نام آنا لاز م ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت علامہ نے 1904ء میں معاشیات پر پہلی کتاب (الاقتصادیات ) اردو میں تحریر کی۔ علامہ نے اپنی قوم کے بچوں کے لئے دعائیہ نظم لکھی جس میں عام شاعری نہیں تھی بلکہ قوم کے بچوں کے لئے خوش شناسی اور خدا شناسی کا درس تھا ۔انہوں نے کہا کہ علامہ کے دل میں اردو زبان کا درد موجود تھا ۔ آپ اردو کو نہ صرف پاک و ہند بلکہ تمام ایشیاء کی ترجمان زبان دیکھنا چاہتے تھے۔ ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے خطاب میں کہا کہ علامہ اقبال مستقبل کے مفکر ہیں ان کا مخاطب امت مسلمہ ہے۔ کسی بھی قوم کی زبان اپنا مدعا بیان کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور قومی ترقی کی بنیاد ہوتی ہے۔ وطن عزیز کا آئین اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ دیتا ہے مگر ہم نے تسلسل کے ساتھ آئین کی روگردانی کا طرز اپنا رکھا ہے جو کسی صورت جائز نہیں۔ راقم الحروف نے بطور صدر رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں انفرادی طور پر اپنے اوپر اردو کا نفاذکرنا لاز م ہے۔ ہماری جیب میں موجود تعارفی کارڈ گھر اور دفتر پر لگی نام کی تختی خوشی غمی کے پیغامات قومی زبان میں دکھائی دینے چاہئیں ۔ مجلس کے روح رواں پروفیسر عدنان عالم تھے جبکہ نظامت کے فرائض پروفیسر سلیم ہاشمی نے انجام دیے ۔آخر میں حضرت علامہ کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا ۔ بعد ازاں مظفر بھٹی صاحب نے بڑی درمندانہ اور پرخلوص دعا کروائی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024