ایران پر نیا وار کردیاگیا ہے۔ امریکی پابندیاں کسی اصول، قانون، ضابطے یا اخلاقی تقاضے کا جواز نہیں رکھتیں۔ اصل اہداف مالی سے بڑھ کر کچھ اور بھی ہیں۔ ایران کو مالی طورپر کمزور کرکے اسکے اندر ایسی افراتفری پھیلانا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ اور اسکے حواری بالخصوص ناجائز بچہ، اسرائیلی صہیونی ریاست ایران کاکلیجہ چبا کر قدیمی روایت پوری کرنے کی خواہش پوری کرلے۔ یہ تمنا اس خطے اور دنیا کو خون میں نہلانے کا نیا گھناؤنا منصوبہ ہے۔
تازہ ترین اقدام کے تحت جو ملک ایران کے ساتھ لین دین، معاملات کریگا، اس کو نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ وہ ایران سے سامان، تیل لیجانے والے جہازوں کو روکے گا۔ اسکی بحریہ ایسے جہازوں کی ناکہ بندی کریگی۔ روس اور چین نے اس امریکی دھمکی کو مسترد کر دیا ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ امریکہ نے اپنی دھمکیوں کے دائرے سے اپنے بغل بچے بھارت کو آزاد رکھا ہے۔ ایرانی چاہ بہار سے ریلوے کی تعمیر اور لین دین پر امریکہ نے بھارت کو اجازت دے دی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل منصوبہ کچھ اور ہے۔ روس اور چین کے ساتھ اس تازہ محاذ آرائی پر پوری دنیا کو ایک نئے خوف نے جکڑ لیا ہے اور نتائج پر سوچ وبچار جاری ہے۔
بدتمیز ٹرمپ اپنی ناقابل یقین انتخابی فتح سے قبل اس امر کا ببانگ دہل اظہارکر رہے تھے کہ وہ ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دینگے۔ یہ معاہدہ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین نے 2015ء میں ایران کے ساتھ کیا تھا۔ اب وہ بلاجواز یا کسی قانونی خلاف ورزی کو ثابت کئے بغیر اس معاہدے کو ختم کرچکے ہیں۔ اب نیا وار تازہ پابندیوں کی صورت میں کیاگیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ رواں سال گزرنے کے بعد امریکہ کی جانب سے مزید اقدامات متوقع ہیں۔ نجانے امریکی پاگل پن کی کون کون سی نئی جہات سامنے آنے کو ہیں۔
تازہ پابندیوں کے نتیجے میں ایران کی قوت خرید یا امریکی ڈالر اپنے پاس جمع رکھنے کی صلاحیت متاثر ہوگی خاص طورپر سونا اور دیگر قیمتی دھاتوں کی خریداری اس میں شامل ہے۔ ایرانی ریال کی شرح تبادلہ، قرض کی شرح اور ایرانی آٹوموٹیو انڈسٹری کے زیادہ متاثر ہونے کا امکان ظاہر کیاجارہا ہے۔ ایران کو اللہ تعالی نے تیل کے وسیع ذخائر عطا فرمائے ہیں جو اسکی بہت بڑی قوت ہیں۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں امریکہ نے تھانیدار بن کر کسی بھی ملک کو ایرانی تیل نہ خریدنے کی دھمکی دی ہے۔ بات نہ ماننے کی صورت وہی پرانا راگ کہ جو ایران کے ساتھ لین دین اور معاملہ کرے گا، امریکہ کے غیظ وغضب اور پابندیوں کا نشانہ بنے گا۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے ایک گروہ کے نزدیک ایران کی معیشت ان پابندیوں سے بری طرح متاثر ہوگی۔ ایران کو مشرق وسطی کا جرمنی کہا جاتا ہے۔ یہ وہ آخری ابھرتی ہوئی منڈی ہے جو دنیا کیلئے کھْلی ہے۔ آٹھ کروڑ صارفین سے زائد کی منڈی۔ جس کی آبادی میں شرح خواندگی بھی متاثر کْن ہے۔ تعلیم یافتہ ایرانیوں کو ہزاروں سال پر پھیلی ان کی تاریخ مزید شکوہ بخشتی ہے اور پھر قدرتی وسائل کی موجودگی ان کے اعتماد کو ایک نیا غرور عطا کرتی ہے جس میں قیمتی دھاتیں بھی شامل ہیں۔ ایران کو زرمبادلہ کی ضرورت ہوگی۔ امریکہ پورا زور لگائے گا کہ یوایس فیڈرل ریزرو(یو ایس ایف آر) یعنی انکے خزانے کا دروازہ ایران کے مرکزی بنک پر بند رہے تاکہ ایران کی درآمدات اور برآمدات میں اسے کوئی سہولت نہ مل سکے۔ یہ ایران کیلئے ایک نہایت مشکل صورتحال ہوگی۔ ایران کے پاس مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کی تیس کروڑ صارفین کی مارکیٹ بھی موجود ہے جو امریکہ کی آبادی کے مساوی شمار ہوتی ہے۔ ان پابندیوں کے ذریعے ایران کی سٹیل، ایلومینیم اور آٹو سیکٹر کو نشانہ بنانا مقصد ہے اور پابندیوں کے نتیجے میں ایران کو اپنی ان صنعتوں کیلئے خام مال اور ناگزیر فاضل پرزہ جات کی فراہمی محدود بنائی جائیگی۔ 2015ء کی کساد بازاری کے بعد2016ء میں ایران کی معیشت میں 12.5فیصد کا پھیلاؤ دیکھا گیا جس نے اگلے سال مزید بہتر اور نشوونما دکھائی۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کیمطابق رواں سال ایران کی شرح نمو 4فیصد رہی جو ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرنے کے امریکی فیصلے سے پہلے تک کی ہے۔ ایران کے ساتھ جب جوہری معاہدہ پر دستخط ہوئے تھے تو یورپ کے صنعتی دیو تسلیم کی جانے والی کمپنیوں میں اربوں ڈالر کے معاہدوں کی دوڑ لگ گئی تھی۔ ان کمپنیوں میں ٹوٹل، پیج، رینو، ائیر بس، ایلسٹم اور سی مینز شامل ہیں۔ وال سٹریٹ کے ذہین دماغوں کی چالوں اور امریکی اقدامات نے انکی دال گلنے نہ دی اور پھر امریکی موڈ نے کمپنیوں کو مالی خطرہ مول نہ لینے پر قائل کر لیا۔
جرمنی سے تعلق رکھنے والی بین الاقوامی اثر کی حامل کمپنی سیمینز کے چیف ایگزیکٹو جو کیسر پہلے ہی امریکی نشریاتی ادارے کو بتا چکے ہیں کہ انکی کمپنی ایران کے ساتھ ہر طرح کے نئے معاہدے ختم کر دیگی۔ اپنی بیچارگی کا اظہار کئے بغیر اس نے پڑھے لکھوں کے انداز میں بتایا کہ امریکی ’گھسْن‘ سے انہیں ڈر لگتا ہے۔ پھر کہتا ہے کہ ہم ’اقدار‘ پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ عالمی کمپنی کی حیثیت سے ہمارے دنیا بھر میں مفادات ہیں۔ ہم نے اقدار اور مفادات میں توازن رکھنا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس نے وہ حقیقت بتائی ہے جو عام ریڑھی اور ٹھیلے والا بھی جانتا ہے۔ جس جگہ آپ نے دھندہ کرنا ہے، وہاں آپ ’رسّہ گیر‘ سے دشمنی مول نہیں لے سکتے لیکن اتنے بے ضمیر اور ظالم بھی نہیں بن سکتے کہ آپکے سامنے کسی کو قتل کر دیا جائے اور آپ ظالم کے ساتھ مل جائیں۔ عالمی مالیاتی نظام اس سانپ کی طرح ہے جس نے پوری دنیا اور انسانوں کو جکڑ رکھا ہے اور جو اسکے چنگل سے نکلنے کیلئے زیادہ ہاتھ پاؤں مارتا ہے، یہ اسکو اس وقت تک ڈستا رہتا ہے جب تک وہ موت کی وادی میں نہیں پہنچ جاتا ہے۔ آپ نے دنیا میں سفارتکاری اور بڑے ممالک کی پالیسی کو اگر سمجھنا ہے تو بس اسکے مالیاتی نظام کا طائرانہ جائزہ لے لیں انکی سادہ سی خواہش ہے کہ ان کی تجوریاں بھرتی چلی جائیں ترقی پذیر ممالک اور خطے مزدور بستیوں میں بدل جائیں جہاں چوہدری یا ساہوکار کی ہر لمحے ’’جئے جئے کار‘‘ ہوتی رہے اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہ ہو۔ سادہ ترین الفاظ میں اس ساری کہانی کو بیان کرنا ہو تو شاید فرعون اور خود بنی اسرائیل کا واقعہ پورا پورا حق ادا کرتا ہے اور بات بھی سمجھا دیتا ہے۔ آج بنی اسرائیل کی شناخت کی آڑ میں صہیونی گروہ پوری دنیا کو اسی اندھیر نگری میں بدلنے پر تْلا ہوا ہے۔
امریکی پابندیوں سے ایران کے اندر بے روزگاری، افراط زر، قیمتوں میں اضافے سمیت بہت سارے وہ اثرات مرتب ہونے کی پیشگوئیاں کی جارہی ہیں جو اس سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی نتیجہ ہیں لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایران ہزاروں سال سے نشیب وفراز سے ہوتا آیا ہے۔ اس سے قبل بھی اس نے متعدد بار پابندیوں کو سہا ہے، اس کا سامنا کیا ہے۔ ایرانی اپنے وقار کو کسی مغرور کے قدموں پر نچھاور کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے انتہائی مشکل ترین حالات میں نہ صرف گزارا کیا بلکہ عالمی استعمار کی انتہائی اوچھی حرکت، ننگے حملوں اور طاقت کے بے محابہ استعمال کو بھی اپنے خلاف مسلسل ناکام بنایا ہے جو یقینی طور پر دشمنوں کو ہر مرتبہ ورطہ حیرت میں ڈالنے کا باعث بن جاتا ہے۔ ایرانیوں نے نہ صرف داخلی، علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے وقار کا دفاع کیا ہے بلکہ وہ مسلسل آگے ہی بڑھتے رہے ہیں۔ اسی لئے امام خمینی نے کہا تھا شاید میں امریکی ذلت نہ دیکھ سکوں لیکن یاد رکھنا امریکی شان و شکوہ خلیج فارس میں ڈوب جائے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024