سنجیدہ حلقوں کیمطابق دراصل کانگریس کا مسلمانوں سے یہ برتائو کوئی نئی بات نہیں یا یہ مسلم وفد سے 11 جولائی 2018 کی ملاقات سے ہی شروع نہیں ہوا بلکہ اسکی ایک طویل تاریخ ہے۔ ماہرین کیمطابق اسکی دو وجوہات ہیں۔ایک تو یہ کہ کانگریس مسلم ووٹ بینک کو اپنا حق سمجھتی ہے ۔ کانگرس کا ماننا ہے کہ BJP اور کانگرس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس کوئی اور متبادل ہے ہی نہیں ، لہٰذا ان پر توجہ دینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ انتہا پسند ہندو معاشرے میں اگر مسلمانوں کی حمایت کا کوئی بیان بھولے بسرے سے دے ہی دیا جائے تو اس کا الٹا اثر ہوتا ہے، بھارتی ذرائع ابلاغ آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور ہندو جنون انتہا پر پہنچ جاتا ہے جس کا پورا فائدہ بی جے پی کو انتخابات میں مل سکتاہے۔ در حقیقت یہی وہ ذہنیت ہے جس کی وجہ سے بھارتی مسلمان آج بھی دوسرے ہی نہیں بلکہ تیسرے درجے کے شہری کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کا اثر لوک سبھا اور ودھان سبھا (صوبائی اسمبلی) کے انتخابات میں ٹکٹ کی تقسیم کے دوران بھی پڑتا ہے اوراس کا مظاہرہ بھارتی ریاست گجرات اورکرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں بھی ہو چکا ہے ۔یاد رہے کہ بی جے پی نے اترپردیش کی 403 رکنی اسمبلی کے انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ یوں بھارت کی دوسری سب سے بڑی اکثریت اورسب سے بڑی اقلیت جو 2011 کی بھارتی مردم شماری کی روشنی میں 14.2فیصد تھی، بری طرح استحصال کا شکار ہے اور بھارتی سیاست، معیشت اورمعاشرت میں یہ تیزی سے بے اختیار ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
دوسری طرف آرایس ایس کھلم کھلا یہ کہہ رہی ہے کہ یہ دیش (بھارت) ہندوئوں کا ہے اور غیر ہندوئوں کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں ۔ اور کانگریس بھی مکمل روپ سے سافٹ ہندوتوا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کے مطابق انتخابات کے دوران مسلم آبادیوں سے دور رہنا ، کٹر ہندو ذہنیت کے بیانات دینا اورٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کو مکمل سائیڈ لائن کرنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ایسے میں بھارتی مسلمانوں میں اضطراب پایا جاتا ہے اور انھیں سمجھ نہیں آتا کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ ایسے میں 11 دسمبر کو پانچ بھارتی ریاستوں کے انتخابات کے نتائج آئیں گے جن میں مدھیہ پردیش بھی شامل ہے، وہاں کانگریس کی نقل و حرکت کو دیکھیں تواندازہ ہوتاہے کہ وہ کسی بھی مسجد، درگاہ یا مسلم آبادی کے کسی فنکشن میں جانے سے مکمل گریزاں ہے جبکہ مندروں میں حاضریاں دی جاتی ہیں۔
یہ تلخ حقیقت کسی سے مخفی نہیں ہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی جانب سے تمام پنچایتوں میں گئو شالائوں کے قیام کے اعلانات کئے گئے اوربڑے جوش وخروش سے راہول گاندھی کو ’’شیوبھکت‘‘ اور ’’ہنومان بھگت‘‘ قرار دیا گیا۔ یہ سب کرتے ہوئے کانگرسی لیڈروں نے اعلانیہ کہا کہ بی جے پی کا ہندوازم پرکاپی رائٹ نہیں ہے،یہ ان کا بھی مذہب ہے اور وہ اس پر بھرپور طریقے سے عمل پیرا ہیں راہول گاندھی کے جلسوں میں ’’ہر ہر مہادیو‘‘ کی صدائیں بھی معمول سے سننے کو ملتی ہیں۔
عجیب بات تو یہ بھی ہے کہ کانگریس ہندوئوں کے مذہبی جذبات کو ابھارنے میں یہ بھی ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ بی جے پی سے کسی بھی صورت میں کم نہیں ہے۔ان سب باتوں سے اگرکانگریس یہ سمجھتی ہے کہ اس سے ہندوتوا کی طرف مائل ہندوئوں کو اپنی جانب مائل کر پائے گی اور کٹر ہندو ووٹ بینک کا ایک حلقہ اس کے حق میں آجائے گا تو سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے جتنی انتخابی میٹنگیں ہوئی ہیں، اس لحاظ سے کانگرس اوربی جے پی کی میٹنگوں میں کوئی فرق نہیں ہے کہ دونوں میں انتہاپسند ہندو علامتیں اور نشانات پائے جاتے ہیں اور انھیں دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ دھرم یعنی مذہب کو بھارتی سیاست میں دوسری تمام چیزوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہو چکی ہے۔ مسلم اقلیت کی مجموعی صورتحال کیاہے، یہ کسی سے مخفی نہیں ہے ، پہلے گوپال سنگھ اقلیتی پینل اور بعد میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد صاف پتہ چلتا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی حالت اچھوت ہندوئوں سے بھی بدتر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسلم مخالف پالیسی محض بی جے پی یا کانگریس کی ہی نہیں بلکہ اس بدلتے ہوئے رجحان کا اثر بھارت کی دیگر سیاسی پارٹیوں پربھی پڑرہاہے اور وہ بھی بھارتی مسلمانوں کے تئیں گریز اور کسی حد تک جارحیت کا رویہ اختیار کرنے لگی ہیں۔ ایسے میں عالمی برادری بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کی طرف توجہ نہ دے تو غالباً اس پر بجا طور پر تشویش ظاہر کی جانی چاہیے۔ (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024