پیر‘ 3؍ ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 12 ؍ نومبر2018ء
کسی کی دم پر پائوں نہیں رکھا: فاروق ستاراس جنگ کی ابتداء گزشتہ روز ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے کی تھی۔ کمیٹی نے فاروق ستار کی رکنیت خارج کرکے انہیں عملاً ایم کیو ایم سے ہی فارغ کر دیا۔ یوں تین حصوں میں تقسیم ایم کیو ایم کا چوتھا ایڈیشن بھی اب تیار ہوکر جلدی سامنے آنے والا ہے۔ یوں…؎اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئیکوئی یہاں گرا کوئی وہاں گراآگے چل کر نجانے اور کتنے ٹکڑے کہاں کہاں گرتے پڑتے نظرآئیں گے۔ اب فاروق بھائی بھی سیخ پا ہیں بلکہ یوں کہہ لیںآگ بگولا ہیں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے تمام رہنمائوں کا کچا چٹھا کھول کر سامنے رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ ان سب کے سابقہ اور موجودہ اثاثوں کی تفصیلات میرے پاس ہیں جو اگر میڈیا کے سامنے پیش کر دوں تو پتہ چلے گا کہ یہ سب اتنے بڑے سرمایہ دار کیسے بن گئے۔ اب اس سوال یا حملے کے بعد یہ کہنا کہ کسی کی دم پر پائوں نہیں رکھا‘ عجب سی بات ہے۔ یہ تو دم پر نہیں سراسر گردن پر پائوں ہے جس کے بعد ایم کیو ایم کے مخالف دھڑے کے رہنمائوں نے بھی جوابی بیان میں فاروق ستار پرتُرت کرپشن کا الزام لگا کر حساب چکتا کر دیا۔ اب دیکھنا ہے الزامات اور جوابی الزامات کی گھن گرج میں ظہور پذیر ہونے والا چوتھا دھڑا کیا رنگ جماتا ہے۔ ویسے بھی کہتے ہیں۔ ’’رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد‘‘٭…٭…٭اسلام آباد: وزیر مواصلات کی سرکاری رہائش گاہ میں بندر گھس آئے‘ پولیس کی دوڑیں لگ گئیںدارالحکومت کی کھلی ڈلی فضا میں رہنے والے یہ جنگل کے مکین اکثر سڑکوں پر اور جنگل کے قریب گھروں میں گھس آتے ہیں۔ لوگ ازخود انہیں کھانے پینے کی اشیاء ڈال دیتے ہیں مگر آج تک کوئی اتنی بڑی خبر نہیں بنی۔ ہاںالبتہ جنگلی سؤر جو حرام جانور ہے اور نقصان بھی پہنچاتا ہے‘ اس کی طرف سے رہائشی علاقوں میں ہلہ بولنے کی خبر البتہ میڈیا پر ضرور چلتی ہے۔ مگر وہ بھی ایسی ہوتی ہے کہ کوئی خاص توجہ نہیں دیتا۔ گزشتہ روز جس طرح وفاقی وزیر مواصلات نے گھر میں داخل ہوئے ان نادیدہ مہمانوں یعنی بندروں سے خوفزدہ ہوکر 15 پر کال چلا دی کہ ان کے گھر میں نامعلوم افراد گھس آئے ہیں‘ اس سے ان کی ساری بہادری کی قلعی کھل گئی ہے۔ قومی اسمبلی اور جلسہ گاہ کے سٹیج پر جس طرح مراد سعید گرج برس رہے ہوتے ہیں‘ اس کے بعد تو وہی نام کیا ہے شیرخان‘ باپ کا نام بہادر خان۔ پوچھا گیا اندر کیوں نہیں آرہے جواب ملا صحن میں کتا بیٹھا ہے۔ اس سے ڈر لگتا ہے والا لطیفہ یاد آجاتا ہے۔ بنا کسی تحقیق کے چھان بین کے وزیر موصوف نے اچھل کود کرنے والے بندروں کو معلوم نہیں تخریب کار یا ڈاکو سمجھ کر خوفزدہ ہوکر 15 پر کال چلا دی جس کے بعد ظاہر ہے حکومت کے نہایت من پسند وزیر کی کال پر اسلام آباد پولیس صرف حرکت میں ہی نہیں آئی بھاگنے دوڑنے لگی اور گھر کے چاروں طرف سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ اب ظاہر بندر تو بندر ہیں‘ پلک جھپکتے ہی یہ جاوہ جا ہو گئے۔ انہیں بھی اسلام آباد کے پڑوس کے جنگل میں رہتے ہوئے عرصہ ہو چکا ہے۔ پولیس گاڑی کی آواز سنتے ہی وہ رفوچکر ہوگئے کیونکہ انہیں کوئی شوق نہیں گرفتاری کے بعد ڈاکو یا تخریب کار کہلوانے کا۔٭…٭…٭ٹرمپ کی ایک اور صحافی سے جھڑپ‘ سخت جھاڑ پلا دیکہنے کو تو امریکہ ایک آزاد ملک ہے جہاں ہر ایک کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ خاص طورپر میڈیا تو بہت زیادہ آزاد ہے مگر یہ سب باتیں ہاتھی کے دانت کی طرح ہیں‘ کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ پہلے شاید کھلے آزادانہ ماحول میں امریکی میڈیا کام کرتا ہوگا مگر جب سے مرد آہن ٹرمپ نے حکومت سنبھالی ہے‘ میڈیا کی کھنچائی کا کام انہوں نے بنفس نفیس خود سنبھال لیا ہے۔ الیکشن مہم میں ہی وہ اس کا بھرپور مظاہرہ کر چکے ہیں۔ وہ خالص کائو بوائے انداز ہیں میڈیا پر خوب گرجتے بھی ہیں‘ برستے بھی ہیں۔ اب گزشتہ دو روز میں انہوں نے پہلے سی این این کے نمائندے کو جس طرح بے بھائو کی سنا کر اسکے وائٹ ہائوس میں داخلے پر پابندی لگانے کا کہا‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اب جو بھی ان کے مزاج کے خلاف بولے گا‘ وہ پٹے گا۔ اس کے بعد تو سب کو کان ہو جانا چاہئیں تھے مگر اس کے باوجود ایک سرپھرے صحافی نے گزشتہ روز پھر صاحب سلامت کے مزاج کے خلاف سوال کردیا تو ٹرمپ نے اس کی وہ کلاس لی کہ سب دم بخود ہو گئے۔ ٹرمپ نے صحافی کے سوال کو فضول قرار دیتے ہوئے اسے تنبیہ کی کہ اس مقدس جگہ (وائٹ ہائوس) کا احترام کریں اور اپنے صدر کا بھی (یعنی میرا بھی) ایسے فضول سوال نہ کریں کافی دیر سے آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ ایسی فضول حرکتیں کرتے ہوئے۔ ایک تو کرارا جواب اوپر سے ٹرمپ جیسا سرخ وسفید ہیوی آنجناب ہو تو صحافی کی سٹی گم ہونی ہی تھی۔ بہرحال بحیثیت صحافی دنیا بھر کے صحافی صدر ٹرمپ کی طرف سے صحافیوں کو دھمکانے ان کا تراہ نکالنے کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ صحافی پہلے ہی نازک دل ہوتے ہیں۔ وہ کسی کی بات برداشت نہیں کرتے۔ اب اگر یہ واقعہ کسی ایشیائی ملک میں پیش آیا ہوتا تو یہاں اخبارات آزادی اظہار کے نام پر صدر کے خلاف صفحات کے صفحات سیاہ کر رہے ہوتے مگر امریکہ میں شاید یہ روایت نہیں۔٭…٭…٭حکومت بھینسیں اور گاڑیاں بیچ کر نہیں چلائی جا سکتی: احسن اقبالبات تو احسن اقبال نے زبردست کی ہے مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ اعلیٰ نسلی بھینسیں پال کر یا قیمتی گاڑیاں ذخیرہ کرکے بھی تو کوئی حکومت نہیں چل سکتی۔ اس کا تجربہ مسلم لیگ (ن) سے زیادہ اور کس جماعت کو ہو سکتا ہے جو یکے بعد دیگرے نشانہ بننے کے باوجود سبق حاصل نہ کر سکی۔ ان کی کوشش رہی کہ اداروں کو ساتھ لیکر چلے۔ سو یہ نہ ہو سکا۔ اب حکومت جن کے ہاتھ ہے‘ وہ اداروں کے ساتھ چل رہے ہیں اس لئے انہیں بے فکری ہے۔ بطور اپوزیشن بھی مسلم لیگ (ن) نے کونسا تیر چلا لیا۔ اب تک پوری طاقت لگا کر بھی وہ کروڑوں لاکھوں نظر نہیں آئے جو قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں کے نعرے لگاتے تھے۔ چند ایک رہنما اور کارکن صرف فوٹو اٹھانے کیلئے رسمی احتجاج اور نعرے لگاتے ہیں۔ بعد میں غائب ہو جاتے ہیں۔ پولیس کو انہیں ہاتھ لگانے یا پکڑنے کی نوبت تک نہیں آتی۔ باقی سب عہدیدار کارکن اور وزیر غائب ہیں۔ سوائے مریم اورنگزیب کے۔ کہتے ہیں نادر شاہ درانی دہلی فتح کرنے قلعہ کے باہر پہنچا تو روایتی جنگی لباس میں تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ محمد شاہ رنگیلا بے شرمی سے ململ کا شاہی لباس پہنے استقبال کو محل کے باہر آیا تو نادر شاہ سے کہنے لگا حضور اتنی گرمی میں یہ لباس! جواب میں نادر شاہ نے کہا میرے اس لباس نے مجھے افغانستان سے ایران اور وہاں سے ہندوستان تک کا بادشاہ بنایا ہے اس لئے یہ تیرے شاہی لباس سے بہتر ہے۔ سو جناب بھینسیں ہوں‘ گاڑی ہو یا گھوڑے‘ یہ سب جمع کرنے کی بجائے اگر حکمران عوام اور ملک پر توجہ دیں تو کوئی میلی آنکھ ان کی طرف اُٹھ نہیں سکتی۔٭…٭…٭