وزیراعظم کا سپریم کورٹ کے فیصلوںپر سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم‘ لاہور میں ’’پناہ گاہ‘‘ کا سنگ بنیاد‘ شفافیت کیلئے کمیٹی قائم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات کے مطابق پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے پرعزم ہیں، انشاء اللہ پاکستان اسلامی دنیا میں فلاحی ریاست کی مثال بنے گا۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو گا تو حکومت اور ریاست کیسے چلے گی، حکومت سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں غریب اور بے سہارا افراد کیلئے ’’پناہ گاہ‘‘ کے قیام کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ حکومت عدالت عظمیٰ کے فیصلے کیساتھ کھڑی ہے۔ وزیراعظم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کرپشن کے خاتمے کیلئے حیرت انگیز چیزیں سامنے لائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا ترقیاتی سکیموں میں محکمانہ کرپشن کی روک تھام کیلئے بڑا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیراعظم نے کرپشن کی روک تھام کی حکمت عملی کیلئے کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی محکمانہ کرپشن کے خاتمے کیلئے سفارشات تیار کرے گی۔ وزیراعظم کو پنجاب حکومت کی بریفنگ میں بتایا گیا محکموں میں 30 سے 40 فیصد فنڈز لگتے ہیں باقی کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا حکومت سنبھالتے ہی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ہمیں قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا تھا، حکومت کی کوششوں اور اللہ کے فضل سے پاکستان اس بحران سے باہر نکل آیا ہے۔ آج ’’پناہ گاہ‘‘ منصوبے کا سنگ بنیاد فلاحی ریاست کی طرف ایک پہلا قدم ہے، اس کے بعد ہم نے بڑے بڑے کام کرنے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر ایک چینی کہاوت کا بھی حوالہ دیا کہ ایک ہزار میل کے سفر کا آغاز پہلے قدم سے ہوتا ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کراچی میں اوورسیز چیمبر کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو رہے ہیں اور ایک سے دو روز تک سعودی عرب سے بھی ایک ارب ڈالر پاکستان منتقل ہو جائیں گے۔ حکومت صنعتی پیداواربڑھانے پرتوجہ دے رہی ہے۔ ہماری حکومت معیشت کی بہتری کیلئے تمام تراقدامات کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ کہ دبئی میں 4 ہزارغیر قانونی پاکستانیوں کے اثاثوں کامعلوم ہواہے جبکہ دبئی سمیت 27ممالک میں 95ہزارپاکستانیوں کے بینک اکا ئونٹس کی معلومات بھی اکٹھی کر لی ہیں اور انکو نوٹسز بھی جاری کررہے ہیںتمام ادارے آن بورڈ ہیںاور اس ضمن میں قانون سازی بھی کی جا رہی ہے کیونکہ ایف بی آر کرپشن کی وجہ ٹیکس وصول نہیں کر سکی جسکی وجہ سے ٹارگٹ غیر فطری ہے جس کو بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اسد عمرنے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض کے ٹارگٹ کا یقین نہیں ہوا اس پر مذا کرات چل رہے ہیں۔
ماضی میں حکومتی پارٹیوں کی طرف سے عدالتی فیصلوں پر مزاحمت کی مثالیں موجود ہیں۔ عدالتوں کیخلاف پراپیگنڈہ بھی ہوتا رہا ہے۔ عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کیا جائے‘ انکی مزاحمت کی جائے یا عدالتوں کو سکینڈلائز کرنے کی کوشش کی جائے تو معاشرہ انارکی ہی کا شکار ہوگا۔ عدالتی فیصلوں پر عمل کے حوالے سے دوسری رائے ہوسکتی ہے اور نہ ہی سسٹم عدم عمل کا متحمل ہوسکتا ہے۔ کئی عدالتی فیصلوں پر حکومت کو عمل کرانا ہوتا ہے۔ تحریک انصاف حکومت ایسا کر بھی رہی ہے۔ وزیاعظم کی طرف سے دوٹوک بیان شاید کچھ لوگوں کی طرف سے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کے بعد دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کی طرف سے عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے یقین اور عزم عدلیہ پر اعتماد کا اظہار اطمینان بخش ہے۔
تحریک انصاف انتخابی مہم کے دوران اور بعدازاں حکومت میں آنے پر پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے دعوے کرتی رہی ہے۔ ’’پناہ گاہ‘‘ کی تعمیر کے اعلان سے قبل حکومت نے شہروں میں مسافر خانے تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ آغاز کار میں لاہور میں چھ مسافر خانے بنائے جارہے ہیں۔ ایسے اقدامات فلاحی ریاست کی طرف ابتداہیں۔ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہے۔ عوام کیلئے تعلیم صحت اور روزگار کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آپکے پاس تعلیم اور صحت کے ادارے موجود ہیں مگر طبقاتی تفاوت کے باعث مساوات کا فقدان ہے۔ امیر لوگ مہنگے صحت اور تعلیم کے اداروں سے مستفید ہونے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ سفید پوش لوگوں کیلئے ایسے اداروں تک رسائی ممکن نہیں۔ سرکاری اداروں کو مہنگے ترین اداروں کے مقابل لا کر دوطبقاتی سسٹم سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف حکومت اس کاز کیلئے کمٹڈ ہے۔ اس میں اپنے دعوئوں کے مطابق کامیاب ہوجاتی ہے تو پاکستان اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کے طور پر نئے پاکستان کی صورت میں سامنے آئیگا۔
فلاحی ریاست بنانے کیلئے مطلوبہ وسائل کہاں سے آئینگے؟ ایسے وسائل ہمارے پاس موجود ہیں‘ ضرورت صرف اور صرف ان کو چینج کرنے کی ہے جس کیلئے حکومت گرم جوشی سے کام کررہی ہے۔ معیشت کی زبوں حالی‘ عام آدمی کی پسماندگی کی بڑی وجہ عوام الناس کا اپنے جائز حقوق سے محروم ہونا ہے ‘ اس کا بڑا سبب شاید کرپشن ہے۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ محکموں میں 30 سے چالیس فیصد فنڈز لگتے ہیں‘ باقی 60 سے 70 فیصد کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ محکمہ جاتی کرپشن کے خاتمے کی حکمت عملی کیلئے سب سے بڑے صوبے میں کمیٹی بنا دی گئی ہے جو سفارشات مرتب کریگی۔ وفاق اور دیگر صوبوں میں بھی ایسی کمیٹیاں بنائی جانی چاہئیں‘ یہ بلوئنگ وسل قانون کی سپورٹ میں اہم ہونگی۔
سات آٹھ سال قبل چیئرمین نیب فصیح بخاری نے اعداد و شمار کے ذریعے ثابت کیا تھا کہ ملک میں روزانہ کی بنیاد پر 12 سے 14‘ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ حکومت اس کرپشن پر قابو پانے کیلئے بھی کوشاں ہے۔ نیب کے ذریعے ملک کو لوٹنے والوں کا کڑا احتساب ہورہا ہے۔ عدلیہ بھی اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے بعد کرپشن کے پرانے سکینڈل تو سامنے آرہے ہیں‘ دو اڑھائی ماہ میں ہونیوالی کرپشن کا کوئی ایسا کیس سامنے نہیں آیا جس میں وزراء اور بڑے بیوروکریٹ لیول کے لوگ ملوث ہوں۔ سردست کرپشن کے راستے مسدود ہوتے نظر آرہے ہیں جبکہ کڑے احتساب سے بڑی رقوم کے قومی خزانے میں واپسی کی امید پیدا ہوئی ہے۔
حکومتی حلقوں کے بقول تحریک انصاف کو اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں انحطاط پذیر معیشت کے باعث پریشانی اور تشویش کا سامنا تھا۔ حالات ملک کے دیوالیہ پن کی طرف جارہے تھے۔ آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج کیلئے کڑی اور ناروا شرائط پر تیار تھا۔ حکومت اس سے بچنا چاہتی تھی۔ ایک موقع پر جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق آئی ایم ایف کے پاس جانے کا تلخ فیصلہ کرلیا گیا۔ اسی دوران پاکستان کیلئے حالات سازگار ہوئے۔ وزیراعظم دوسرے دورے پر سعودی عرب اور اسکے بعد دورے پر چین گئے تو معیشت درست ٹریک پر چڑھنے لگی۔ وزیر خزانہ اسدعمر نے دوٹوک اعلان کیا کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل آیا ہے۔ اب وزیراعظم نے بھی قرضوں کی قسطوں کے بحران سے نکلنے کی تائید کی ہے۔ قسطوں کے بحران سے نکلنے کے بعد اگلا مرحلہ معیشت کو مضبوط خطوط پر استوار کرنا ہے۔ اس کیلئے سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافے کی طرف پوری توجہ دینا ہوگی جس کیلئے حالات سازگار ہیں۔ دہشت گردی دم توڑ رہی ہے‘ توانائی بحران کم ترین سطح پر آگیا۔ کرپشن کے وہ راستے بند ہورہے ہیں جو ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کیلئے حوصلہ شکنی کا باعث ہوا کرتے تھے۔ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے معیشت کا مضبوط ہونا اولین شرط ہے۔ کرپشن کے خاتمے اور وسائل کے درست استعمال سے معیشت کو اوج کمال پر پہنچانے کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس منزل کے جلد حصول کیلئے بیرون ممالک پاکستانیوں کے سامنے آنے والے اربوں ڈالر کے ناجائز اثاثے پاکستان لانے کی کوشش کی جائے۔
سوئس اکائونٹس میں دو سو ارب ڈالر کے موجود ہونے کی بازگشت ہنوز سنائی دے رہی ہے۔ وزیر خزانہ نے دبئی اور دیگر ممالک میں پاکستانیوں کے غیرقانونی اثاثوں کی بات کی ہے۔ پانامہ اور بہاماز لیکس میں ماخوذ افراد کی تعداد چھ سو سے زیادہ ہے۔ ان میں ٹیکس چرانے اور بچانے کے عمل میں ملوث لوگوں کے اثاثے بھی مجموعی طور پر اربوں ڈالر کے ہیں۔ قومی دولت لوٹ کر برطانیہ‘ آئرلینڈ میں کئی لوگ ’’پناہ‘‘ حاصل کرلیتے ہیں۔ برطانیہ کے ساتھ ایسے ملزموں اور مجرموں کے تبادلے کے معاہدے میں پیش رفت ہورہی ہے۔ ایسے اقدامات ملکی معیشت کی مضبوطی میں ممدومعاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو اب بیانات سے بہت آگے جانا ہوگا۔ اب تک بیرون ملک سے پاکستانیوں کے ناجائز اثاثوں کی واپسی شروع ہو جانی چاہیے تھی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024