دنیائے اسلام میں سعود ی عرب ایک نہایت ہی دردمند، ہمدرد اور اپنی دولت کو ا سلام کی خدمت، مسلمانوںکی فلاح و بہبود، حج انتظاما ت کی بہتری اورحاجیوں کی خدمت کیلئے بے دریغ ا ستعما ل کرنے والا ملک رہا ہے۔ بین الاقوامی قانون کی خلا ف ورزی کرتے ہوئے جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو ا س نے پور ے خطے کو عدم استحکام کا شکار کردیا۔ مشرق وسطی میں سعودی عرب اور مصر کے علاوہ تمام اہم ممالک خانہ جنگی کا شکار ہو گئے۔
یہ ہنستے بستے ممالک دیکھتے دیکھتے کھنڈرات میں بدل گئے ہیں اور ان کی آباد ی کا ایک بڑ ا حصہ دیگر ممالک میں نقل مکانی کرکے پناہ گزین بن چکا ہے۔ اس پس منظر میں تیل کی عالمی قیمتوں میں زبردست کمی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، جس نے عرب معیشتوں خصوصاً سعودی عرب کیلئے معاشی بحران پیدا کردیا “ بہار عرب” کے واقعات اور خصوصاً مصر میں ہونے والی تبدیلیاں خاص کر اخوان المسلمین کی حکومت کے خاتمے، صدر مرسی کی گرفتاری اور اخوان پر پابندی نے سعودی حکومت کی روایتی خود اعتمادی کو شدید متاثر کیا۔ سعود ی عرب نے نہ صرف ان واقعات کی حمایت کی بلکہ مار چ 2014 میں اخوان پر اور شام میں اسد حکومت کیخلاف برسرپیکار تحریکوں پر پابند ی عائد کردی۔ بحرین، کویت اور متحدہ عرب امارات نے بھی اس پابندی کا اعلان کردیا۔ بعد ازاں قطر کے انکار کے بعد ان ممالک نے اس سے سفارتی تعلقات ختم کر دیئے۔
اہم بات یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کا آغاز مرحوم شاہ عبداللہ کی زندگی کے آخری دنوں میں ہو گیا تھا۔ شاہ عبداللہ نے مقبول اصلاحات کا عمل شروع کیا تھا جو بڑی حد تک پرانے نظام میں رہتے ہوئے آسانیاں پیدا کرنے کا عمل تھا۔ سعودی نظام ایک قومی ریا ست کے علی الرغم درحقیقت قبائلی روایات پر مبنی رہا ہے۔ بادشاہ اس طرز کا خودمختار اور مطلق العنان نہیں تھا جیسا معروف ملوکیت میں پایا جاتا ہے۔ شاہ عبدالعزیز نے مملکت میں جانشینی کا قاعدہ اپنے بیٹوں کے درمیان طے کرنے کیلئے خاندان کے بڑوں اور علمائے کرام پر مشتمل ایک کونسل کے سپرد کر دیا تھا۔ 1953 میں شاہ عبدالعزیز کے بعد ان کے بڑ ے بیٹے سعود بادشاہ مقرر ہوئے لیکن وہ اہلیت اور قابلیت میں بہت کمزور تھے جب کہ ولی عہد شہزادہ فیصل نے نہ صرف جنگوں میں حصہ لیا تھا بلکہ انہیں انتظامی اور سفارتی امور کا وسیع تجربہ بھی تھا۔ لہذا مشاورتی کونسل کی منظوری سے شاہ سعود کو معزول کر کے 1964 میں شاہ فیصل نے اقتدار سنبھال لیا۔ عالم اسلام کے اتحاد اور ا س کی خوشحالی کیلئے شاہ فیصل کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اس نظام کو استحکام دینے والی اصل بنیاد اقتدار اور طاقت کی تقسیم کا وہ فارمولا تھا جو بڑی محنت اور اخلا ص کی ساتھ کونسل کی مشاورت سے طے پایا تھا۔ یہ فارمولا 501 سا ل کا آزمایا ہوا ہے اور باوجود کہ اس میں ضرورت کے مطابق معمولی تبدیلیا ں بھی ہوئیں لیکن ا س کی مملکتی ا ستحکام پیدا کرنے کی صلاحیت قائم رہی۔ فارمولے کے تحت مملکت کی طاقت کے تین بڑ ے ستون وزارت دفا ع، وزارت داخلہ اور نیشنل گارڈز رہے ہیں۔ شاہ کے دیگر بھائی کئی کئی دہائیوں تک ان وزارتوں کے سربراہ رہے ہیں اور یوں ان کی شراکت اقتدار کا انتظام کیا جاتا رہا۔
علاوہ ازیں ا س نظام میں مذہب کا بڑا کردار تھا کیونکہ آل سعود نے آل شیخ کی ا صلاحی تحریک کی ساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلا ف جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اس بنیاد پر علما کو مذہبی امور اور خصوصاً امربالمعروف ونہی عن المنکر کے نفاذ کی ذمہ داری تفویض کی گئی تھی۔ اب ہم ا س جانب آتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں سعودی عرب میں کون سے فتنے جنم لے رہے ہیں۔ حقیقت میں ان واقعا ت کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی عرب کواپریل 2015 میںیمن میں فوجی مداخلت کرنا پڑی جس کیلئے اس نے پاکستا ن سے بھی مدد کا تقاضا کیا تھا مگر معقول انداز میں معذرت کر لی گئی۔ تقریباً دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یمن میں کوئی قابل بیان کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہ غریب ملک بہت زیادہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان جلد ازجلد سعودی عرب کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں جبکہ ان مسائل سے جڑی پیچیدگیوں کا انہیں ادراک نہیں ہے اور یہ بات بعد میں پیش آمدہ واقعات سے عیاں ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے امریکہ کا صدر بننے کے بعد نائب ولی عہد کے حوصلے اور آرزوئیں آسمان کو چھونے لگیں۔ اس کی وجہ ان کی ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کے ساتھ دوستی ہے۔ اپنی صدارت کے شروع میں ٹرمپ نے اپنی وزارت خارجہ اور خارجہ امور کے ماہرین کو اس وقت ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ جب انہوں نے یہ گل افشانی کی کہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کو کشنر سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اور اس سے بہتر حل کسی کے پاس نہیں ہے۔
گارجین اخبار کو ایک طویل انٹرویو میں اس نوجوان فلسفی شہزادے نے یہ مژدہ سنایا کہ : ”میں سعودی عرب کو واپس اس ’معتدل اسلام‘ کی طرف لے جاﺅں گا جو ہماری وراثت اور روایت ہے۔ ہماری مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب انقلاب ایران کے بعد کئی اسلامی ممالک کے لوگوں نے اسی طرز کی تبدیلی کی خواہش شروع کردی جس میں سعودی عرب بھی شامل ہے۔ ہمارے رہنماﺅں کو یہ سمجھ ہی نہیں تھی کہ اس مشکل سے کیسے نمٹا جائے۔ اس وقت ہماری آبادی کا 70 فیصد حصہ 30 سال یا اس سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ ہم اپنی زندگی کے مزید 30 سال دہشت گردی سے لڑنے میں ضائع نہیں کرینگے۔ ہم آج اور فوری طور پر اس انتہا پسندی کو مکمل طور پر کچل کر رکھ دیں گے۔“
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سعودی عرب جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے اس میں شاہی خاندان کی بڑھتی ہوئی تعداد، انکے اخراجات تیل کی آمدنی میں مسلسل کمی، تعلیم یافتہ بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ اور سرکاری شعبے میں روزگار کے محدود مواقع شامل ہیں۔ ان چیلنجز کے مقابلے کیلئے پرانے نظام میں بنیادی اصلاحات از بس ضروری ہیں جو ایک جانب شاہی خاندان کی تعداد اور ان کو ملنے والے وظیفوں میں خاطر خواہ کمی کرے(جیسا کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے 2015ءمیں کیا تھا) اور دوسری جانب معیشت کا محور تیل سے بدل کر انسانی وسائل کی ترقی اور ٹیکنالوجی کے حصول پر مرتکز کر دے۔ علاوہ ازیں یہ ضرورت بھی ہے کہ مذہبی سخت گیری میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔ اس تناظر میں شہزادہ محمد کے اقدامات کی کسی حد تک ترجیح کی جا سکتی ہے۔ لیکن حالیہ اقدامات کی نوعیت، وسعت اور انداز عملدرآمد کچھ اور خبر دے رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ان واقعات کے پیچھے ایک بہت بڑا محرک ایران سعودی رقابت ہے جو ٹرمپ کی صدارت میں ایک نیا رخ اختیار کر رہی ہے۔ اس رقابت کا نیا محاذ لبنان اور حزب اللہ کی سرگرمیاں ہیں، خصوصاً شام اور اسرائیل سے متعلق، سعودی عرب شائد اس جھگڑے میں کردار ادا کرنے کو تیار لگتا ہے، اور جس کی پرانی کونسل کی طرف سے مخالفت یقینی تھی۔ اس کا عندیہ اس وقت سامنے آیا جب ان واقعات کے ساتھ ہی لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری نے ریاض سے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور اس کا سبب اپنی جان کو لاحق خطرات اور لبنان میں ایرانی مداخلت کو قرار دیا۔
لندن کے موقر اخبار انڈیپنڈنٹ نے یہ خبر لگائی ہے کہ سعد الحریری کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ 3نومبر کو ریاض ایئرپورٹ پہنچے اور استعفیٰ انہوں نے اس وقت دیا جب وہ زیر حراست تھے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے سعد کے استعفیٰ کا محرک کشنر کو قرار دیا ہے اور انتباہ کیا ہے کہ یہ سب کچھ لبنان کو دوبارہ خانہ جنگی میں دھکیلنے کی کوشش ہے۔ حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل کو حزب اللہ کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے کا کہا ہے۔ مسلمان سعودی عرب سے ایک گہرا قلبی تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے استحکام اور سلامتی کیلئے وہ کوئی بھی قربانی دے سکتے ہیں لیکن ہم جتنا چاہیں حسن ظن سے کام لے لیں، زمینی حقائق ایک ایسی صورتحال کی نشاندہی کر رہے ہیں جس سے اسلام کے اس مرکز میں صرصر کی آہٹ سب سن سکتے ہیں۔
گارجین کے فلسفیانہ انٹرویو میں محمد بن سلمان نے، جن کی پیدائش 1985ءکی ہے‘ 30 سال پہلے کے سعودی معاشرے کی طرف پلٹنے کا اشارہ دیا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ وہ کون سا وقت تھا جب سعودی معاشرہ جدید دنیا سے مختلف طرز حیات پر کسی بھی شرمندگی یا احساس کمتری کا شکار رہا ہو، جیسا کہ آج شہزادے کی باتوں سے ظاہر ہو رہا ہے۔ 500 ارب ڈالر سے ایک نئے شہر کی تعمیر جس میں گلف ریاستوں میں میسر تفریح طبع کی آزادیاں حاصل ہوں گی‘ کس طرح 30 سال پہلے کے سعودی معاشرے کی طرف پلٹنے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38