اتوار ‘ 22 صفرالمظفر 1439ھ‘12 نومبر2017ئ
سندھ نیشنل فرنٹ پی آئی ٹی میں ضم ہو گئی
مبارک ہو سندھ نیشنل فرنٹ نے ایک نیا ہمراہی تلاش کر ہی لیا۔ اب کی بار ان کی سیاسی جوڑی تحریک انصاف کے ساتھ بنی ہے اور خدا کرے کہ ”بنی اور بنے میں بنی رہے،، کیونکہ سندھ نیشنل فرنٹ کی سیاسی جوڑی جس کے ساتھ بھی بنی‘ دیرپا ثابت نہیںہوسکی۔ اس کی تازہ مثال مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بڑی دھوم دھڑکے کے ساتھ بننے والی اسکی جوڑی ہے۔ کئی برس یہ جوڑا قائم رہا۔ زیادہ غلطیاں‘ وعدہ خلافیاں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ہوئیں جو وعدہ کیا وہ وفا نہ کیا کیونکہ اس وقت فرینڈلی اپوزیشن کے نام پر درپردہ پروان چڑھنے والی آصف زرداری کی محبت کو عروج حاصل تھا۔ سندھ نیشنل فرنٹ والے آخر کب تک بے وفائی کا بوجھ کاندھوں پر اٹھائے پھرتے۔ انہوں نے یہ بوجھ بالآخر گردن سے اتار پھینکا۔ یوں مسلم لیگ (ن) جو سندھ میں پہلے ہی دم رخصت پر نظر آتی ہے‘ مزید نڈھال ہو گئی۔ اب سندھ نیشنل فرنٹ کی طرف جو تحریک انصاف نے ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے گرم جوشی سے تھام لیا۔ یوں شاہ محمود قریشی اور امیر بخش بھٹو نے تحریک انصاف میں سندھ نیشنل فرنٹ کے انضمام کا اعلان کر دیا۔ یہ انضمام ویسے ہی ہوا ہے جیسے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہواتھا‘ جس میں سے بعد ازاں نیشنل فرنٹ صحیح سلامت نکل آئی تھی۔ اب دیکھنا ہے یہ انضمام کتنے دن چلتا ہے اور اسکے سندھ کی سیاست پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ تحریک انصاف کو اس وقت سندھ میں سندھی بولنے والوں کو لبھانے کیلئے مضبوط سہارے کی ضرورت ہے جو اسے نیشنل فرنٹ کی شکل میں مل گیا ہے۔ اگرچہ فرنٹ کی حالت چلے ہوئے کارتوس کی ہے مگر ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بھی کافی محسوس ہوتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
مشرف کی سربراہی میں 23 جماعتی پاکستان عوامی اتحاد قائم
ابھی اس اتحاد کی تقریب رونمائی ہی ہوئی تھی کہ مولانا طاہرالقادری نے مشورہ نہ ہونے پر اس سے چند قدم دور رہنے کا فرمان جاری کر دیا۔ باقی رہ گئے 22‘ دیکھنا ہے اب ان میں سے کون کون راستے میں دو چار قدم چل کر دم توڑتا ہے۔ اگر کوئی ان جماعتوں کا حدود اربعہ تلاش کرنے نکلے تو صبح تا شام خاک چھاننے کے باوجود شاید ہی چند ایک جماعتوں کوچھوڑ کر کسی کا نام بھی کسی کے حافظہ میں محفوظ نکلے ۔جن کے نام سے لوگ واقف نہیں‘ ان بے نام جماعتوں کے کاندھے پر اب مشرف کو سیاست کا دولہا بنا کر سوار کیا جارہا ہے۔ اس بھان متی کے کنبے میں تو شاید ان جماعتوں کے سربراہوں کے سوا شاید ہی کوئی دوسرا ہوگا۔ اب اس بارات کا استقبال کون کرے گا۔ لیلائے اقتدار کی دلہن کے سلسلے میں تو فی الحال وڈے خان صاحب سے نامہ و پیام مل رہا ہے۔ وہ اپنے بلے سے چوکے چھکے لگانے کو بے تاب نظر آرہے ہیں۔ زرداری صاحب بھی سوئمبر میں آس لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید ان کا تیر چل جائے۔ مسلم لیگ (ن) والے کوشش کر رہے ہیں کہ علیحدگی کی نوبت نہ آئے اور اقتدا کی سیج سجی رہے۔ ان حالات میں تو لگتا ہے کہ سارا سیاسی پنڈ مر بھی جائے تو بھی اس 22 یا 23 جماعتی اتحاد کی قسمت میں وصل لیلیٰ نہیں۔ ہاں اگر کوئی آکر لیلیٰ کو اڑا یا بھگا لے جائے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ویسے اگر لیلیٰ اس بھان متی کے کنبے کے ہاتھ لگ گئی تو اس کا حشر کیا ہوگا۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
شوہر گھر کے سارے کام کرتا ہے‘ مصری خاتون نے طلاق کا مطالبہ کر دیا
یہ تو سراسر ”ناطقہ سرگریباں ہوں اسے کیا کہئے“ ۔ یہ تو سراسر کفران نعمت والی بات ہے۔ اس کیلئے پاکستان ہی نہیں‘ دنیا بھر میں آئے روز سرپھٹول ہوتی ہے۔ میاں بیوی آپس میں لڑتے ہیں‘ ایک دوسرے پر کام چوری کے نہایت امن دشمن قسم کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ اب اس خوش نصیب مصری عورت کو کوئی جا کر بتائے کہ بی بی اس دور میں تمہیں ایسا کوئی دوسرا شوہر کہاں ملے گا جو بیوی کو پھولوں کی سیج پر بٹھا کر خود کانٹوں پر رہتا ہو۔ یہ گھریلو کام کرنا خالہ جی کا گھر نہیں۔ پوچھئے ان عورتوں سے جو چلا چلا کر تھک جاتی ہیں مگر شوہر نامدار پانی کا گلاس تک اٹھا کر نہیں پلاتا۔ البتہ وہ بیویاں مستثنیٰ ہیں جو بزور طاقت مجبور و محکوم شوہروں سے زبردستی گھریلو کام کراتی ہیں جسکے سبب ان بے چارے شوہروں کو ”رن مرید“ کا خطاب ملتا ہے۔ حالانکہ یہ بے چارے گھریلو امن کی خاطر ایسا کرتے ہیں۔ معلوم نہیں مصری عورت اس شوہر سے علیحدگی کیوں چاہتی ہے۔ شاید وہ بیکار بیٹھ کر موٹی ہو گئی ہوگی یا اسکے اور اسکی پڑوسنوں کے پاس باتوں کا سٹاک ختم ہو گیا ہوگا اس لئے اس نے یہ قدم اٹھایا ہے۔ اب اگر شوہر طلاق سے بچنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ فوری طورپر غلامانہ زندگی چھوڑ کر صف مرواں میں دوبارہ نام لکھوائے اور سارا گھر خاتون خانہ کے کاندھے پر ڈال کر اسے کام کاج کا مختار بنا کر خود آرام کی زندگی بسر کرے۔ ٹی وی دیکھے‘ عبادت کرے‘ اخبار پڑھے یا تسبیح جو چاہے کرے‘ گھریلو فکروں سے آزاد ہوکر اپنی ”بے غمی“ کو اس غم میں مبتلا کرے کہ یہ سارے کام کون کرےگا۔
٭....٭....٭....٭
امریکی عدالت میں مسلمان باپ نے بیٹے کے قاتل کو معاف کر دیا
یہ ہے اسلام کا حقیقی چہرہ۔ ایک مسلمان بڑے سے بڑے مجرم کو بھی صرف خدا کی خوشنودی کیلئے معاف کر دیتا ہے۔ ایسے پُرامن اور سلامتی والے مذہب کو جو غلط لوگ بدنام کررہے ہیں‘ وہ اسلام کا حقیقی چہرہ نہیں۔ جس طرح امریکی عدالت میں اپنے بیٹے کے قاتل کو جسے عدالت 31 سال کی سزا سنا چکی تھی‘ ایک غمزہ باپ نے معاف کر دیا۔ اس پر نہ صرف عدالت میں موجود لوگ بلکہ خود جج صاحبہ بھی رو پڑیںاور انہیں کچھ دیر کیلئے عدالت سے اٹھ کر باہر جا کر آنسو پونچھنے پڑے۔ اسلام تو وہ مذہب ہے جو قبرستان سے گزرنے پر مُردوں کو سلام کہنے کا حکم دیتا ہے۔ اس میں کسی جاندار کی ہلاکت‘ تشدد اور یہ جدید دور کی سوغات یعنی خودکش دھماکوں کی اجازت نہیں۔
اب کیا کیا جائے۔ آج کل تو فیشن بن گیا کہ کہیں پٹاخہ بھی پھوٹے تو اس کے پیچھے کسی مسلمان کا ہاتھ تلاش کیا جاتا ہے۔ کوئی شرابی یا نشئی لوگوں پر ٹرک چڑھا دے‘ شاپنگ سنٹر میں فائرنگ کر دے‘ امریکہ ہو یا برطانیہ‘ فرانس ہو یا ہالینڈ بس اُدھر واقعہ رونما ہوا‘ اِدھر سارا یورپی میڈیا اس واقعے کے پیچھے کسی سازش کا سراغ لگانے میں مصروف ہو جاتا ہے اور پھر اس خطرناک سازش کے پیچھے سے اچانک کسی مسلمان کا یا کسی مسلمان تنظیم کا کھینچ کھانچ کر سرا تلاش کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر بندر کی بلا طوطے کے سر باندھنے کی بھرپور کوشش ہوتی ہے۔ طالبان اور داعش کے نام پر ایسا ہوا کھڑا کر دیا گیا ہے کہ ہر بُرائی اور غلطی جو خود ان کی اپنی ہی کیوں نہ ہو‘ مسلمانوں پر تھوپ دی جاتی ہے حالانکہ فساد پھیلانے والی یہ دونوں تنظیمیں خود مغرب کی پروردہ ہیں۔