تاج خان کی کہانی
ملتان سے میانوالی جانے والی سڑک کو ایم ایم روڈکہتے ہیں۔ آج سے پچاس سال پہلے یہ سڑک ایک تنگ سی تنہائی کا شکار سڑک تھی یہاں پر ٹریفک کی روانی بہت کم تھی۔ آج کے پرہجوم آبادی والے چوک جو اس سڑک پر آتے ہیں بہت غیر آباد سے تھے۔ چوک منڈے پر دو ہوٹل تھے جو سرِ شام ہی بند ہو جاتے تھے۔ اسی طرح کا ہی حال چوک اعظم‘ چوک فتح پور اور چوک سرائے کرشنا کا تھا۔ اب سرائے کرشنا کا نام تبدیل کر کے چوک مہاجر رکھ دیا گیا ہے۔ پاکستان کی آبادیوں اور شہروں کو کبھی ’’پاک‘‘ کرنے کا بڑا رواج تھا۔ منٹگمری‘ لائل پور اور فورٹ سنڈے مین سے مشکوک نام ہٹا کر انہیں پاک نام دے دئے گئے۔ ہو سکتا ہے سرائے کرشنا کا نام بھی اسی اعلیٰ جذبے کے تحت تبدیل کیا گیا ہو۔ اگر آپ چوک فتح پور سے ملتان کی طرف آئیں تو تھوڑے فاصلے پر ٹال پلازہ آجاتا ہے۔ وہاں نزدیک ہی ایک پل ہے جس سے گزر کر ایک سڑک چکوک کی طرف جاتی ہے۔ اس چھوٹی سی پل کا نام ٹنڈوں والی پل پڑ گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ٹنڈے ایک سبزی کا نام ہے۔ یہاں کے کاشتکار اس سبزی کو بڑے پیمانے پر کاشت کر کے فصل کو اس پل پر لاتے تھے اور پھر یہیں سے بیوپاری حضرات اس سبزی سے ٹرک بھر کر ملک کے شہروں کا رخ کرتے تھے۔ اس ٹنڈوں والی پل کے ساتھ تاج خان نامی ایک پٹھان اپنے مختصر سے خاندان کے ساتھ آ کر یہاں آباد ہو گیا جس وقت تاج خان یہاں آیا اس وقت یہاں آبادی بہت کم تھی۔ آس پاس کوئی آئل پمپ نہیں تھا۔ لہٰذا تاج خان پٹھان نے ایک آہنی ٹینکی خریدی اور اس میں ڈیزل فیول ذخیرہ کرکے ٹریکٹروں کے مالکوں کو فروخت کرنے لگا۔ اس وقت مقامی لوگ افغانستان سے آنے والے پٹھانوں کو دامانی یا پاوندا کہتے تھے۔ حالات پرسکون تھے اور خوشحالی تاج خان کے دروازے پر دستک دے رہی تھی لیکن اس سادا لوح پٹھان کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ پاکستان کے ایک دیہاتی علاقے میں ویران جگہ پر اکیلا بیٹھا ہے اور اس کے اردگرد بھیڑیے انسانوں کی شکل میں موجود ہیں اور اپنے شکار پر نگاہ بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارے دیہاتوں میں جو بے طاقت ہے کمزور ہے جس کی بہت زیادہ ووٹوں والی برادری نہیں ہے اور جو کسی سیاسی ڈیرے کا جھولی چک نہیں ہے یا وہ تھانے کا پولیس دلال نہیں ہے ایسے شخص کو رات کو سوتے ہوئے بھی ایک آنکھ کھول کر رکھنا چاہئے۔
تاج خان ایک رات گہری نیند سویا رات کو چور آئے اور اس کی ساری پونجی لے کر نو دو گیارہ ہو گئے۔ رات کو امیر سونے والا تاج خان صبح کو جب بیدار ہوا تو وہ کنگال تھا۔ وہ حواس باختہ صبح تھانے پہنچا۔ کئی دن ذلیل ہونے کے بعد ایک ایم پی اے کی سفارشی چٹھی نے اور بہت سارے قائداعظم کی تصویر والے کرارے کاغذوں نے تاج کا پہلا مسئلہ حل کیا اور پرچہ درج ہو گیا۔ اب سیاسی ڈیروں کے پھیرے اور تھانے کی سیراپھیری شروع ہوئی اور مظلوم تاج خان ڈیروں اور تھانے کے درمیان گھومنے والی گیند بنا رہا جو چور تھے ان کے سرپرست سیاستدان اور پولیس ایک طرف تاج کو یہ کہتے تھے کہ تمہاری چوری ضرور ملے گی اور دوسری طرف چوروں کوکہتے مزے کرو تمہارا بال بیکا بھی نہیں ہو گا۔
تماشہ یہ ہوا کہ چور ہر دوسرے تیسرے دن تاج خان کے پاس آتے اس کے پلے سے چائے پیتے اور اس کے ہونے والے نقصان پر افسوس کرتے اور مسکراتے ہوئے چلے جاتے۔ تھانے والوں کے ہاتھ یہ شغل آ گیا کہ ہر دوسرے تیسرے دن وہ تاج خان کے ڈیرے پر آتے اور کہتے خان تیری چوری کا کھوج ملا ہے ۔فلاں چک جانا ہے۔ ایک تو اس ڈالے (پک اپ) میں ڈیزل بھردو اور دوسرا کچھ خرچہ پانی ہماری جیب میں ڈالو۔ اس طرح کا مذاق تاج خان کے ساتھ پولیس ‘ سیاستدان اور چور مل کر کرتے رہے۔ آخر یہ سلسلہ دو سال تک چلا۔ بیچارے خان کی چور ی تو نہ ملی البتہ وہ وسیب کا بہلاوا بن گیا اور نوبت فاقوں تک آ گئی۔ آخر ایک دن یہ آیا کہ تاج خان اپنی باقی پونجی بیچ کر غائب ہو گیا۔ اب وہ قرب و جوار میں مزدوری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اگر کوئی اس سے پوچھے کہ تمہاری چوری کا کیا ہوا تو وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتا ہے توبہ توبہ اگر کسی کا کوئی نقصان ہو جائے تو وہ سیانہ بنے اور تھانہ کچہری جانے کی بجائے خاموش ہو کر گھر بیٹھ جائے کیونکہ ایک حصہ مال چور کھا جاتے ہیں اور دو حصے مال سیاسی ڈیرے‘ پولیس اور کچہری والے کھا جاتے ہیں۔ مظلوم کو یہ طریقہ کوئی فائدہ تو نہیں پہنچاتا البتہ وہ حق کیلئے لڑتے لڑتے بوڑھا اور کنگال ہو جاتا ہے۔
آج کے پاکستانی تھانوں اور کچہریوں میں جو مظلوم ‘ مضروب یا طالب انصاف سائل بھی جاتا ہے وہ تاج خان بنا دیا جاتا ہے۔ حکومتیں جب ریاست پاکستان میں پرجوش نعرے لگاتی آتی ہیں تو عوام بڑے پرامید ہو جاتے ہیں لیکن جب اقتدار چھوڑ کر گھروں کو واپس سر جھکائے جاتی ہیں تو عوام اس حقیقت کو دیکھ کر اور پریشان ہو جاتے ہیں کہ معاملہ کچھ اور بگڑ گیا ہے اور ریاست کے جسم پر زخم کچھ اور بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں پولیس کی تعداد کو لامحدود انداز میں بڑھا دیا گیا ہے یا بڑھایا جا رہا ہے لیکن پولیس کی سوچ اور مزاج کو تبدیل نہیں کیا جا سکا اور نوآبادیاتی عمل اور عوام کے ساتھ پولیس کا رابطہ نوآبادیاتی حکمرانوں جیسا ہے بلکہ اب جہالت اور ظلم میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور ان مظالم کو ذرائع ابلاغ نے مسلسل بے نقاب کیا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام ارضی صورتحال کو بھانپ کر ریاست سے بیزار ہو گئے ہیں اور پاکستان کے عوام یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی جنگجو قبائلی معاشرے کا حصہ بن گئے ہیں جہاں تین چار طاقتور قبائل اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے اور اقتدار کو ایک دوسرے سے چھیننے کی جنگ لڑتے رہتے ہیں اور اس جنگ نے عوام کو بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت نے پنجاب میں ایک ڈولفن پولیس متعارف کرائی ہے جس کے پاس کالے رنگ کے بھاری موٹرسائیکل ہیں اور سر پر ہیلمٹ یہ نقاب پوش پولیس اپنے وجود کو ثابت کرنے کیلئے ٹریفک کو اچانک روک کر شہر میں مزید پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ راہ چلتے لوگوں کو روک کر ان کے منہ سونگھنا اور عوام کو بے عزت کرنا اس نئی نقاب پوش پولیس کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ یہ پولیس کیوں بنائی گئی ہے؟ جبکہ ریاست پہلے ہی پولیس کی ریاست کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ اس پولیس کو دیکھ کر ہمیں ایک سیاسی جماعت کی وہ پولیس فورس یاد آگئی ہے جو عوامی حکومت کو بچانے کیلئے عبادت گاہوں میں گھس کر عوام کو قتل کرتی تھی۔ کیا اس نقاب پوش پولیس کو بھی کوئی ایسا فرض سونپا گیا ہے جس کی وہ تعمیل کر رہی ہے؟