ایک تنخواہ سے کتنی بار ٹیکس دوں اور کیوں؟
میں نے تیس دن کام کیا۔ تنخواہ لی ٹیکس دیا۔ سیل فون خریدا ٹیکس دیا‘ ری چارج کیا ٹیکس دیا۔ ڈیٹا کنکشن اون کیا پھر ٹیکس دیا۔ بجلی لی ٹیکس دیا۔ فریج ریفریجریٹر لیا ٹیکس دیا۔ گاڑی لی ٹیکس دیا‘ پٹرول ڈلوایا ٹیکس ‘ روڈ پہ چلی ٹیکس دیا‘ پارکنگ کی تو بھی ٹیکس دیا۔ ڈرائیونگ میں کوئی غلطی کی پھر ٹیکس دیا۔ کپڑے‘ جوتے‘ کاسمیٹکس لیا ٹیکس دیا۔ گھر کا راشن لیا ٹیکس دیا۔ ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا ٹیکس دیا۔ دوائی لی ٹیکس دیا۔ سینکڑوں اور چیزیں ہیں ان سب پر بھی ٹیکس دیا۔ کہیں فیس کہیں جرمانے تو کہیں رشوت کے نام پر پیسے دینے ہی پڑے۔ اس سب ڈرامے کے بعد اگر سیونگ کی نظر سے کچھ بچا ہی لیا تو اس پر بھی ٹیکس دیا۔ لوگوں کے ساری عمر کام کرنے کے بعد کوئی پنشن نہیں کوئی سوشل سکیورٹی نہیں۔ اس سے تو بہتر تھا پانچ سال کیلئے ایم پی اے یا ایم این اے بن جاتے تو مزے تھے۔
کوئی میڈیکل انشورنس نہیں۔ بچوں کیلئے معیاری سکولز نہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہیں۔ سڑکیں خراب ‘ سیٹلائٹس خراب‘ پانی خراب‘ ہوا خراب پھل اور سبزیاںزہریلی۔ ہسپتال مہنگے بلکہ ہر سال مہنگائی میں اضافہ۔ اس کے علاوہ بھی بے تحاشہ خرچے۔ آخر سارا پیسہ گیا کہاں؟ کرپشن میں الیکشن میں امیروں کو حاصل مراعات میں فرضی دیوالیہ ہو کر قرضے معاف کروانے میں سوئس بینکس میں لیڈرز کے بنگلے اور کارز میں عوام کو سبز باغ دکھانے میں اور پانامہ کے ہنگامے میں چور کس کو کہیں؟ آخر کب تک ملک کی غریب عوام جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارتے رہیں گے۔ میں وطن عزیز کی غریب عوام کے استحصال کے بارے میں سوچتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔
اب وقت آ چکا کسی شخص واحد کی اندھی محبت اور تاکید کی بجائے اس پیارے ملک کی عوام کے بارے میں سوچا جائے۔ غربت کے خلاف جنگ لڑی جائے اور عوام کو اپنا حق استعمال کرنے کا طریقہ بنایا جائے۔ ملک میں غربت کا حال یہ ہے کہ لوگ فاقوں سے تنگ اپنے بچوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کر دیتے اور خودکشی کر لینے پر مجبور ہیں۔ یہ بات میں بیسیوں واقعے سننے اور دیکھنے کے بعد کررہی ہوں۔ پچھلے چھ ماہ میں میرے پیارے شہر لیہ میں ایسے تین دردناک واقعے سامنے آئے۔ باپ نے بچوں کو مار دیا۔ خودکشی کر لی۔ ہائے کتنا ظالم تھا کسی نے کہا اولاد نافرمان تھی کسی نے کہا‘ بدکردار تھی‘ کسی نے کہا خود بدچلن تھا اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالا۔ کیا انسانی جان اتنی سستی ہو گئی ہے۔ کسی کو ان کی مجبوری ‘ بے بسی نظر نہیں آئی اور ایک ایک کے سامنے ہاتھ پھیلایا تھوڑی سی امداد کردو توجواب ملا ہمارے اپنے بچوں کے خرچے کم ہیں کیا؟ جا کے خود کما لیکن وہ ذریعہ معاش کہاں سے آئے۔
ایک طرف بے حس خواب غفلت میں پڑے حکمران اور دوسری طرف اپنی مستی اور عیش و عشرت میں پڑے سرمایہ دار اور سیاستدان چار چار بنگلے فارم ہاؤس اور گاڑیوں کی لمبی لائنیں ‘ وی آئی پی پروٹوکول درجنوں کے حساب سے خدمت پر مامور نوکر اور دوسری طرف وہ غریب‘ مکین‘ بے بس ‘ لاچار‘ لوگ جنہیں ایک وقت کی روٹی میسر نہیں سر چھپانے کو چھت نہیں۔ ایک طرف مہنگائی کا عذاب اور دوسری طرف غربت کی کہرآلود شام۔ بے بسی کی تصویر بنے یہ غریب عوام ۔کون بنے گا ان کیلئے مسیحا کون لائے گا ان کی زندگیوں میں روشنی کون نکالے گا مایوسی کے اندھیروںکو ‘ کیوں نہیں ہے دولت کی منصفانہ تقسیم۔ کیا ان پیدائشی غریب بچوں کو ترقی کا کوئی حق نہیں ۔ کیا غلام کے غلام ہی رہیں گے تو ان کے لئے میرے پاس جواب یہ ہے کہ یہ غلامی خریدنے والے بھی خود یہی لوگ ہیں۔ وہ خود ان سب چیزوں کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنے اوپر ان جاہل حکمرانوں کو مسلط کیا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال اپنی حالت کے بدلنے کا
کیا ایسی قوم ترقی کر سکتی ہے جنہیں خود اپنے غلط اور صحیح کا پتہ نہ ہو۔ جنہیں خود حق رائے کی آزادی کا استعمال نہ آتا ہو۔ سب کے سب ایک بھیڑ چال اور سبز باغ دیکھنے میں ایک دوسرے کے پیچھے قطاریں بنائے چل رہے ہیں۔ خدا را میرے وطن عزیز کی پیاری عوام ہوش کے ناخن لو اپنے صحیح لیڈر‘ صحیح راستوں کا انتخاب کرو۔ اپنے حق اور اپنے وطن عزیز کے اچھے مستقبل کیلئے خود لڑو۔ اﷲ پر اپنا یقین پختہ کرو جن انسانوں مسلمانوں کا یقین و ایمان پختہ ہوتا ہے وہ دنیا میں سورج کی مانند بڑی روشن و منور زندگی بسر کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ غلامی ایک بہت بڑی لعنت ہے۔ وہ ہر لحاظ سے بے بس ہو جاتا ہے لیکن اگر اس میں پختہ یقین و ایمان کا جذبہ پیداہو جائے تو غلامی کی سب زنجیروں کو توڑ سکتا ہے۔ اپنے ایمان کو پختہ بنائیں اپنی ذات سے حرص و ہوس نکال دیں اور سب ایک قوم بن کر سوچیں۔ انسان حرص و ہوس کا شکار ہو کر انہیں کا پجاری بن جاتا ہے۔ اس سے دل سے رحم اور انسانیت سب ختم ہو جاتی ہے اور ہمارے حکمران اسی حرص و ہوس کا شکار ہیں جو کہ عوام کا خون نچوڑ نچوڑ کر پی رہے ہیں۔ لیکن بیوقوف عوام ان کی جھوٹی تسلی پر آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چل پڑتی ہے۔
خواب سے بیدار ہوتا ذرامحکوم اگر
پھرسلادیتی ہے انہیں حکمران کی ساحری
ایک طرف ہمارے بے حس حکمران اور دوسری طرف سرمایہ دار اور جاگیردار جو کہ دولت کے بڑے بڑے ڈھیر لگا کر اوپر سانپ بن کر بیٹھے ہزار ہزار مربع زمینوں کے مالک ہیں انہیں کوئی سمجھائے اﷲ نے زمین کو ملکیت نہیں ہماری متاع قرار دیا ہے اور یہ متاع تمام انسانوں کو عطا کی ہے اس لئے وہ صرف زمین میں سے اپنے حصے کا رزق اور قبر کی زمین لیں اور اپنے مال سے زکواۃ ‘ خیرات اور ٹیکس بھی ادا کریں۔ سوچیں ان غریب لوگوں کا جو غربت سے تنگ اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کہیں بچوں کا قتل‘ کہیں بچہ برائے فروخت اور کہیں بچے بھیک مانگنے اور مزدوری کرنے پر مجبور۔ ایسی جمہوریت ایسی حکمرانی پر تین حرف ان کی دادرسی اور پذیرائی کیلئے اور عوام سے آخری گزارش۔ اٹھو جاگو پاکستان۔ عوام سب سے بڑی طاقت ہیں وہ چاہیں تو صحیح پالیسی اور صحیح فیصلے میں بہت آسانی سے اپنی اور ملک کی تقدیر کو بدل سکتے ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا