انصا ف آپ سے دو ر ؛۔
پا کستان کی ہر سیا سی جما عت اور سیا ست دان عوام سے وعدہ فر ما تے ہیں کہ انصا ف سستا جلد اور آپکی دہلیز پر مہیا کیا جا ئے گا ۔لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا ۔اس وعدے کے خلا ف عملی طو ر پر انصا ف ملتان کی اکثریت سے دور مہیا کئے جا نے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں ۔جو حدیث مبا رکہ جو کہو وہ کر و جو کرو وہ کہو کی خلاف ورزی ہے راقم آسٹنASTON یو نیو رسٹی برمنگھم کے شعبہ مائیکرو سکو پی میں ڈاکٹر کمیل سے بات چیت کر رہا تھا ۔ایک لمبا ٹرنگا انگریز کمرے میں داخل ہوا اور اپنا تعارف کر وایا کہ مو صو ف مینوفیکچرنگ کے سٹنڈرز کی جانچ پڑتال والے ادارے کے ڈائریکٹر ہیں ۔ یہ ادارہ مختلف اداروں کی کارکردگی کا جا ئزہ لیکر سرٹیفیکٹ جا ری کرتا ہے ۔جو اس کی مصنو عات کے معیا ری ہو نے کا سر ٹیفکیٹ ہو تا ہے ۔باتوں باتوں میں مو صوف نے ڈاکٹر کمیل صاحب اور راقم کو یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ ہمارے ادارے کی بنیاد ی پا لیسی آپ کے پیغمبرؐ کی حدیث پر مبنی ہے ۔ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مینو فیکچر ر جو کہتا ہے وہی کرتا ہے اور جو کرتا ہے وہی کہتا ہے ۔یہ واقعہ ایک طر ف تو راقم کے لئے فخر اور خو شی کا تھا کہ غیر مذاہب کے لوگ ہمارے پیغمبر ؐ کی تعلیما ت سے فا ئدہ اٹھا تے ہیں دوسری طرف افسو س اس با ت کا تھاکہ ہم حدیث نبو ی سے عملی فا ئدہ نہیں اٹھا تے ۔
انصا ف آپکی دہلیز پر کا زبا نی کلامی تو ڈھنڈورا پیٹا جا تا ہے لیکن اس کے بر خلا ف ہوتا نظر آرہا ہے انصا ف مہیا کرنے والی ضلعی عدالتیں جہا ں مقدما ت کی ابتدائی اور بنیا دی جانچ ہو تی ہے اور غریب اور نچلے درجے کے اپرکلاس لوگ جنہیں عرف عام میں سفید پو ش کہا جا تا ہے ملو ث ہو تے ہیں ۔عدالتوں کی عمارت کو ان لوگوں سے دو ر لیجا ناتکلیف دہ عمل ہے۔ملتان کی ماتحت عدالتوں کو مرکزی لو کیشن سے چھ سات کلو میٹر دور منتقل کیا جا رہا ہے اس کی وجہ یہ بتا ئی جا تی ہے کہ مو جو دہ عما رتیں ٹریفک کے نظام کو متا ثر کرتی ہیں ۔یہ اتنی بڑی وجہ نہیں کہ اس سے پورے نظام کو ہی تہ و بالا کر دیا جا ئے ۔اس کا علا ج معمولی سوچ چاہتا ہے ۔مو جو دہ نظام میں ایک معمولی سی تبدیلی سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔روزانہ جتنے سمن جا ری کئے جا تے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھے سمن صبح کو تحویل کر دئیے جا ئیں اور با قی بعداز دوپہر کے لئے ہوں اس معمولی سی تبدیلی سے جس سے نہ تو کو ئی رقم خرچ ہو تی ہے اور نہ ہی عملے اور بلڈنگ میں اضا فے کی ضرورت ہے۔جن لوگوں کا نمبر صبح کو آتا ہے وہ صبح کے وقت آئیں گے اور فارغ ہو کر گھر چلے جا ئیـں گے دوسرے لوگ بعداز دوپہر آئیں گے جس وقت آدھے لوگ جا چکے ہونگے اس سے ٹریفک کے نظام پر دبا ئو کم ہو جا ئے گا اور عدالت کے احاطے میں یا عدالتوں کے اردگر د کھومنے والے کم ہو جائیں گے ۔ برطانیہ میں تو ہر کیس کو ایک مقرر وقت دیا جا تا ہے اور مقدمے با ز وقت سے پہلے نہیں آتے جس سے ان کے وقت کی بڑی بچت ہو تی ہے ۔یہ تجربہ ہما رے ہاں آج نہیں تو کل ضرور کرنا پڑے گا ۔ہما رے ہاں وقت کی کو ئی قیمت نہیں جبکہ عوام کی پہنچ سے دور عدالتیں بنا نے کا خیال نہ جا نے کس افلا طون یا ارسطو کو سوجھا دنیا بھر میں عدالتیں شہر کے مرکز میں ہو تی ہیں جہاں آمدورفت کے ذرائع آسان اور بے حد ہو تے ہیں ہر طر ف سے ریل یا بس شہر کے مر کز آتی اور یہاں سے اپنی منزل تک سفر کرتی ہے ۔ملتان کی عدالتوں کی مجو زہ لو کیشن کس سہولت کے لئے منتخب کی گئی ہے ؟
اس کا انتخاب کے با رے میں سنا گیا ہے کہ یہ جگہ ایک با اثر خاندان کی ملکیت تھی جسے سستے داموں خریدا گیا اگر ایسا ہے تو اس کی انکوائری ہو نا لازم ہے ۔یہی نہیں کہ یہ جگہ عوام کے لئے ذرائع آمدورفت کی مشکلا ت کا سبب بنے گی اس کی ایک بڑی خرابی اس کا کھا د فیکٹری کے قریب ہونا بھی ہے فا ضل جج صاحبان اور وکلا برادری کے لئے آٹھ گھنٹے تک کا سلفر اور کاربن زدہ ہو ا بیما ریوں کا سبب بن سکتی ہے یہ طبقہ قوم کا نایاب سرمایہ ہے انہیں زہر آلو دہ ہوائوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا دانشمندی نہیں ۔
مجوزہ عما رت ہا ئی کورٹ سے 7 سے 8 کلو میٹر دو ر ہیں بہت سے وکلا حضرات ضلع عدالتوں اور ہا ئی کورٹ کے مقدمات چلاتے ہیں ان کے لئے یہ عمل جا ری رکھنا تقریبا نا ممکن ہو جا ئے گا ۔ملتان کی ضلعی عدالتوں جنہیں کچہری کہا جا تا ہے موجودہ مقام پر ہی رہنی چا ہیں میٹرو بس سر وس اگر مجوزہ عدالتو ں تک مہیا کی جاسکتی ہے تب بھی یہ عوام کی آمدورفت کے ذرائع آسان بنا دے گی مگر دوسری قباحتیں موجودہ رہیں گی ۔ کچہری کے پیچھے پو لیس لائن کے ساتھ بہت جگہ خالی ہے ٹریفک کو وہاں سے موڑ کررش کو کم کیا جا سکتا ہے ۔یہاں کا ر پارک بنا یا جا سکتا ہے۔
وکلا برادری پوری قوم کو انصاف کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے ۔بار اور بینچ کا گاڑی کے دو پہیوں والا حال ہے ۔وکلا مقدمہ تیا ر کر تے ہیں اس کے ہر پہلو پر بحث کر کے عدالت کو فیصلے کرنے میں مدد گا ر ہو تے ہیں یہ وکلا ہی ہیں جو مقدمات کے قانونی پہلو ں پر بحث کے لئے ریسرچ کر کے عدالت کی رہبری کرتے ہیں ۔ان نا زک مز اج دانشوروں کو آلو دہ ہو ا کے حوالے کرنا زیا دتی ہے وکلا برادری سے درخوا ست ہے کہ وہ فو ری طو ر عدالت عظمیٰ کو درخواست دیکر حکم امتناہی حا صل کرلیں اور حکومت کو مجبو ر کریں کہ وہ اس معاملے کی انکوائری کر وائے تا کہ دو دھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جا ئے ۔ضلع عدالتوں کو شہر سے ایسے دور کیا جا رہا ہے جیسے جانوروں کے بھانوں اور سبزی منڈی کو شہر سے باہرنکال دیا گیا ہے ۔ وما علینا الابلاغ
ہم پر ورش لو ح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے