مسلم لیگ کا انحصار، چوہدری نثار، شہباز شریف!
میاں نواز شریف پر یکدم جس طرح مشکل وقت آن پڑا اس کی ہر گز توقع بھی نہیں کی جا رہی تھی۔ اور اگر ذہن پر زور دیں تو 12 اکتوبر 1999 والا اقدام بھی اسی طرح یکدم اور اچانک عوام کے سامنے آگیا تھا اور اس سے صرف ایک دن قبل تک نوازشریف حکومت کو اتنا نا قابل تسخیر سمجھا جاتا تھا کہ اب میاں نواز شریف کو آئندہ کئی برسوں تک شاید کوئی ہلا جلابھی نہ سکے مگر دوسری بار اس طرح اچانک تخت سے تختہ ہوجانے کے امر نے یہ ثابت کردیا ہے کہ میاں نواز شریف دوسروں کی جارحیت یا انتقام کا نہیں بلکہ خود اپنی میلان طبع کا شکار ہوتے آر ہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس امر کا شاخسانہ ہے کہ نواز شریف نے اپنے مخلص دوستوں ساتھیوں اور طبقے پر انحصار کرنے انہیں ساتھ لے کر چلنے کے بجائے اپنے دیرینہ ساتھی اور وفاداری کی حد کردینے والے چوہدری نثار علی خان جیسے نہایت سنجیدہ باصلاحیت ، نعمت غیر مترقبہ جیسے ساتھی کو خوشامدی ساتھیوں کی طرح طوطی سمجھ کر اپنی حکومت کے نقارخانوں کا نقارہ بنا رکھا تھا‘میاں نواز شریف قومی سلامتی کے اداروں سے متصادم خودکش سوچ رکھنے والے ان مذکورہ عناصر کے عاقبت نا اندیشانہ مشوروں کو رد کرنے کے بجائے ان کی اس طرح آنکھیں بند کرکے توثیق کرتے رہے اور جب میاں صاحب کو آرام کرنے کے لئے گھر بھیجا گیا تو اسلام آباد سے لاہور جلوس کی صورت میں آتے وقت کے دوران جلوس میں اس طرح دم سادھے اپنی مجبوری بے بسی اور تہی دامنی پر نادم کونے کھدرے ڈھونڈتے پھر رہے تھے کہ مبادہ انہیں اداروں سے متعلقہ کوئی لحیم شہیم شخص موچھوں کو تاودیتا ہوا نظر آجائے مریم نواز کی بے جا چہیتی ( جو نہ تو کوئی منتخب نمائندہ ہے ) ماروی میمن کو جب جلوس میں کچھ سمجھ نہ آیا اور ان کی ساری تھنکنگ ختم ہوگئی تو انہوں نے گاڑی میں سے یوں نکل کر گاڑی کی چھت پر چڑھ کر ڈانس کرنا شروع کردیا
گویا شوبز سیکشن کا کوئی سیگمنٹ شروع ہونے والا ہو یہ وہ ہی ماروی میمن تھی جو مشرف کی کابینہ میں رہی تھیں اور اپنے علاقے بدین سے اپنی نشست بھی نہ جیت سکی تھیںجس نے مریم نواز سے مراسم بڑھا کر مریم نواز کی آشیرواد سے وزیر اعظم ہاوس کو میمن ہاوس بنا رکھا تھا اس کو مراعات اور بڑے بڑے پروگرامز کا ہیڈ بنایا گیا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سندھ میں پی پی پی اور پنجاب میں پی ایم ایل این کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی نے نہیں بلکہ ان سب لوگوں نے خود اس کا اہتمام کیا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ ببانگ دہل اور اعلانیہ کیا۔ موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے عوام کی توقعات سے بڑھ کر کارکردگی کا مظاہر ہ کیا ہے جب کہ دوسری طرف اب 2018 کے الیکشن کے بعد پی ایم ایل این کے مستقل وزیر اعظم بننے کا مخمصہ اب تک ہر چند کہ کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچا ہے مگر اب عالمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور پاکستان میں سی پیک سمیت دفاعی انڈسٹری کی نہایت ہی تیز رفتار پیش رفت اور کامیابیوں کو جاری رکھنا ہے تو اوپر پیش کردہ نتائج اور عوامل کو مزید سرعت کے ساتھ اسی طرح نیب ، عدالتوں اور الیکشن کمیشن کو باہمی ہم آہنگی کے ساتھ اپنے پیش کردہ کردار کو کئی گنا آگے بڑھانا پڑے گا۔ جبکہ 2018کے الیکشن کے بعد اگر پی ایم ایل این کو ہی حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو پھر ہر جہت اور لحاظ سے مرکز میں بطور وزیر اعظم چوہدری نثار علی خان کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ میاں شہباز شریف کی صلاحیتوں اور کردار کے حوالے سے چوہدری صاحب کے ہم پلہ ہی ہیں مگر ان کی صوبہ پنجاب کو مزید کئی برس تک شدید ضرورت درپیش ہے کیوں کہ اگر شہباز شریف پنجاب کو چھوڑتے ہیں تو پھر مسائل کسی نئی قسم کی کھچڑی کی نئی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔