نمونےا سے بچاﺅ اپنا پاکستان
دودھ کا کپ سرہانے رکھ دیا ہے۔بہت رات ہو گئی ہے ،کتاب بند کرےں اور سو جائےں۔ مجھے ابھی نماز ادا کرنی ہے آپ آرام کریں میں آتا ہوں دانش نے جواب دیا۔ جی اچھا کہہ کر ثریا سونے کے کمرے کی طرف بڑھی اور جاتے ہی بستر پر خود کو ڈھیر کر لیا۔ وہ بستر پر لےٹی بلب کی دھےمی روشنی کو گھور رہی تھی کہ خیالات کا ایک سمندر اُمڈ آیا۔ وہ دسمبر کی چھ تاریخ تھی جب ثریا اپنے بھاری بھر کم پیٹ کے بوجھ تلے دبی ہوئی ایک بلند حوصلے کے ساتھ اپنی امی اور دانش کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو کر ہسپتال پہنچی۔ ڈاکٹر نے تمام ٹیسٹ اور چیک اپ کے بعد اگلی صبح کو آپریشن کا ٹائم دے دیا۔ صبح ساڑھے سات بجے ثریا اپنی امی کی بلائیں لیتی ہوئی تھیٹر میں چلی گئی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس کے بدن سے درد کی ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔ ایک دم سے زندگی دردناک محسوس ہوئی مگر اگلے ہی لمحے بدن کے ساتھ ایک ننھے سے معصوم فرشتے کے لمس کا احساس ہوا۔ اللہ تیرا شکر ہے ثریا کے منہ سے بے اختیار نکلا اور پیار بھری نظروں سے دانش کو دیکھنے لگی۔ تین دن بعد جب ثریا گھر واپس پہنچی تو مبارک بادوں کا تانتا بندھ گیا۔ بچے کا نام عبدالرحمن رکھا گیا۔جب بچے کے سر کے بال اتارے گئے تو ثرےا کی امی نے کہا لاﺅ مےں اس کو نہلا دیتی ہوں ۔ امی ذرا احتیاط سے کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے،ثرےا نے کہا ۔ میں نے تم سمےت سات بچوں کو پالا ہے۔ اب مجھے سے کیا احتیاط نہیں ہو گی؟ پھر بھی امی عبدالرحمن ابھی چھوٹا ہے۔ ثریا کی امی عبدالرحمن کو نہلانے لگی۔نانی اماں نے جب عبدالرحمن کو نہلاےاتوعبدالرحمن کو کپڑے پہنانے میں کچھ دیر ہو گئی۔ ثریا نے عبدالرحمن کو چھاتی سے لگایا مگر ننھے میاں نے دودھ نہےں پےا۔ چار گھنٹے ہو گئے دودھ نہیں پیا عبدالرحمن نے اور اب بھی سوئے جا رہا ہے، ثریا نے کہا۔ کوئی بات نہیں ابھی سو کر اٹھ جائے گا تو دودھ پلا دینا ثریا کی امی نے تسلی دی۔ عشاءکی نماز ادا کر کے دانش گھر آیا اور عبدالرحمن کو اٹھانے لگا تو ثریا نے کہا ابھی ٹھہرو اس نے دودھ نہیں پیا۔ اب عبدالرحمن کا جسم بھی کچھ گرم لگنے لگا تھا۔ دوبارہ دودھ پلانے کی کوشش کی تو عبدالرحمن دو گھونٹ دودھ پی کر نڈھال ہو گیا اور دودھ چھوڑ دیا۔ رات ایک بجے کے قریب عبدالرحمن کے سینے سے ہلکی ہلکی آواز بھی آنے لگی۔ اب رات کے اس پہر اسے کہاں لے کر جائیں؟عبدالرحمن کو سانس نہیں آ رہا اور اس کی چھاتی میں گہرے ڈونگ پڑرہے ہےں،ثرےا کی امی نے کہا۔ یہ منظر دیکھ کر دانش گھبرا گیا اور اس کے جسم میں بجلی سی کوند گئی۔ وہ صبح پانچ بجے کے قریب شہر کے بڑے ہسپتال کے بچہ وارڈ میں پہنچ گئے۔ ڈیوٹی پر موجود نرس نے کہا بچہ بہت بیمار ہے کوئی سینئر ڈاکٹر ہی آ کر اس کا علاج کرے گا۔ دانش نے اپنے ایک عزیز کے ریفرنس سے ڈاکٹر علی عمران سے ان کی رہائش گاہ پربات کی۔ ڈاکٹر علی نے اسے تسلی دی اور کہا آپ ہسپتال جاﺅ میں آٹھ بجے تک ہسپتال آ جاﺅں گا۔ آٹھ بجے کی بجائے ڈاکٹر علی نو بجے آےاتو اس کے ہاتھ مےں CPSPکے داخلہ فارم تھے ۔دانش کو دےکھ کر اس نے فوری کہا کہ ڈاکٹر اقبال صاحب ڈیوٹی پر آ رہے ہیں میں نے ان سے کہہ دیا ہے وہی بچے کا علاج کرےں گے۔ دانش واپس وارڈ میں آیا اور ڈاکٹر اقبال کا انتظار کرنے لگا۔ دس بجے کے قریب ڈاکٹر اقبال عبدالرحمن کے پاس کھڑا دانش سے کہہ رہا تھا مجھے بڑا افسوس ہے کہ کچھ دےر ہو جانے کی وجہ سے ہم عبدالرحمن کو نہےں بچا سکے ۔میں بھی ایک باپ ہوں آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں مگر کچھ کر نہیں سکتا۔ دانش کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، وہ زندہ سلامت عبدالرحمن کو علاج کے لیے لے کر آیا تھا اور ننھی لاش لے کر واپس جا رہا تھا۔اب وہ گھر جا کر ثرےا کو کیا منہ دکھائے گا۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس کو نمونیا ہو گیا تھا اور علاج مےں کچھ دیر ہو جانے کی وجہ سے عبدالرحمن کی موت واقع ہو گئی تھی۔ یہ کہانی پنجاب کے چالیس ہزار گھروں میں ہر سال وقوع پذیر ہوتی ہے۔ کسی عبدالرحمن کو گرم کپڑے نہیں ملتے تو کوئی ماں کے دودھ کی بجائے بوتل کے دودھ سے جراثیم پی لیتا ہے۔ کسی تک دھوئیں اور گرد کے ذریعے جراثیم پہنچ جاتے ہیں تو کوئی کسی بڑے کے جراثیم آلودہ ہاتھ کے لمس کا شکار ہو جاتا ہے۔ لاکھوں عبدالرحمن اےسے ہیں جنہےںحفاظتی ٹےکے وقت پر نہےں لگتے ۔ کتنے ہی عبدالرحمن اےسے ہیں جن پر نمونیا کے حملے کی ان کے والدین کو اس وقت آگاہی ملتی ہے جب بہت دیر ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی عبدالرحمن ہسپتال پہنچ جاتا ہے تو ڈاکٹر کی عدم دستیابی اور آکسیجن کی عدم فراہمی آڑے آ جاتی ہے۔ آج عالمی یوم نمونیا ہے۔ یہ دن عالمی سطح پر نمونےا جےسی خطرناک بےماری کا شعور اور احساس دلانے کے لیے ہر سال 12 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ نمونیا دنیا بھر میں 920136 پانچ سال سے چھوٹے بچوں کوموت کے منہ مےں دھکےل دےتا ہے۔ پاکستان دنیا بھر میںنموےنا سے ہونے والی بچوں کی شرح اموات پر قابو پانے میں دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ ایک ہزار زندہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 93 بچے نمونےا کی وجہ سے اپنی پانچویں سالگرہ سے پہلے پہلے موت کی ابدی نیند سو جاتے ہیں۔ کئی بچے والدین کی کم عقلی کے باعث ماں کے دودھ سے محروم رہ جاتے ہیں۔ تقریباً 20 سے 30 فیصد بچے حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کر پاتے اور دوائی تک رسائی نہیں حاصل کر پاتے۔ دور دراز دیہات میں رہنے والے والدین مریض بچوں کو شہر پہنچانے میں دیر کر دیتے ہیں جہاں ہسپتالوں مےں ادویات اور آکسیجن موجود ہوتی ہے ۔ عالمی ےوم نمونیا ہمیں یہ یاد دلانے کا ایک اچھا موقع ہے کہ حکومتی سطح پر فراہم کی جانے والی سہولیات مثلاً حفاظتی ٹیکے لگوانا بچے کو بخار کی صورت میں فوری نزدیکی ہسپتال یا مرکز صحت لے جانا، ادوےات اور قابل ڈاکٹروں کی فراہمی حکومتی سطح پر اٹھائے جانے والے وہ قابل ستائش اقدامات ہےںجن سے کافی حد تک نمونےا پہ قابو پاےا جا سکتا ہے۔ لےکن بحیثیت قوم جب تک سب لوگ مل کر بچوں کی صحت کا خیال نہیں کریں گے تب تک ماﺅں کی گود ےو نہی خالی ہوتی رہے گی۔
عثمان غنی
ہےلتھ اےجوکےشن سپےشلسٹ