یہ اکتوبر1977ءکا آغاز تھا۔ گوجرانوالہ پولیس مجھے ڈسٹرکٹ بار لاہور سے گرفتار کر کے لائی اور اگلے روز ہی سمری ملٹری کورٹ میں پیش کر دیا جہاں جج کی کرسی پر ایک فوجی افسر براجمان تھا۔ فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی۔ صحت جرم سے انکار پر فوری طور پر پولیس کے حوالدار لال خاں کو گردن سے پکڑ کر پیش کیا گیا۔ جس نے اپنی ڈائری پیش کرتے ہوئے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے میجر صاحب سے کہا کہ جنرل ضیاءالحق کےخلاف بغاوت پر اکسانے والی یہ تقریر اسی شخص نے کی ہے۔ میجر صاحب نے غصے سے کہا کہ اچھا تم پیپلز پارٹی والے اب بھی باز نہیں آتے۔ جی نہیں میرا تعلق تحریک استقلال سے ہے میں نے جوابا کہا۔ "پھر بھی" یہ کہہ کر وہ مجھے ایک سال قید بامشقت اور دس کوڑوں کی سزا سنا کر ایک لمحے میں عقبی دروازے سے باہر نکل گئے۔ چوہدری محمود بشیر ورک (موجودہ ایم این اے) چوہدری سیف اللہ چیمہ ایڈووکیٹ اور اباجی مجھے جیل کے دروازے تک چھوڑنے آئے۔ ایک مانوس سا آہنی پھاٹک کھلا اور اژدھے کی طرح مجھ سمیت کئی قیدیوں کو نگل کر بند ہو گیا۔قید شروع ہو گئی۔ دن گنے جانے لگے یہ تو بھلا ہو اس وقت کے شفیق سپرٹنڈنٹ چوہدری یار محمدد ریانہ کا کہ انہوں نے کسی سخت قسم کی مشقت سے بچانے کیلئے مجھے جیل کی فیکٹری کا منشی مقرر کر دیا جہاں مجھے وقت کے علاوہ کاغذ اور قلم بھی میسر تھا۔ کبھی کبھی پیپلز پارٹی کے قید یافتہ مقامی رہنما لالہ فاضل کےساتھ مل کر گتے کے ڈبے بنا لیتا تاکہ وقت گذر جائے اور یونہی وقت گذرتا رہا۔ کئی ماہ یونہی گذر گئے کہ ایک دن اطلاع ملی کہ ہمارے ضابطہ دیوانی کے لیکچرار عامر رضاخاں لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ میں نے فورا ایک خط انکے نام لکھا کہ ایک بے ضرر سی تقریر کو بغاوت کا نام دے کر مجھے قید سخت اور تازیانوں کی سزا دی گئی ہے اور آپ سے چونکہ ایک دیرینہ سیاسی تعلق بھی ہے لہذا میری رہائی کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع فرمائیں۔ انہوں نے میری مدد کیلئے کیا رجوع کرنا تھا کہ مجھے قید مکمل ہونے پر جیل سے رہا کر دیا گیا۔ رہے کوڑے تو وہ ایک رٹ کے نتیجے میں پہلے سے ختم کر دیئے گئے تھے۔ رہائی کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار جانے کا اتفاق ہوا تو عامر رضا خاں سے بھی ملاقات ہوئی میں نے گلہ کیا تو وہ وقت کی کمی اور کام کی زیادتی کا بہانہ کرتے رہے حالانکہ یہ اخلاقی جرا¿ت اور ایمان کی کمی اور ایک "اچھے مستقبل" کی آس تھی جو پوری ہوئی اور وہ اسی سال ہی لاہور ہائی کورٹ کے جج بن گئے۔ فوری طور پر ان کا امتحان آگیا۔ ملک بھر میں 1979ءمیں بلدیاتی انتخابات ہونےوالے تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹوں کی بڑی بہتات تھی۔ ہر کوئی امیدوار جس کا پیپلز پارٹی سے کوئی چھوٹا موٹا تعلق یا تعارف ہوتا اس کی کامیابی نوشتہ دیوار تھی جسے ضیاءالحق اور اس کے فوجی ٹولے نے پڑھ لیا تھا۔ لہذا ایسے تمام امیدواروں کو سرے سے ہی نااہل قرار دینے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ پیپلز پارٹی سے تعلق کے دعویدار امیدواروں نے اپنے اشتہارات پر بطور اپنی پہچان کے لفظ "عوام دوست" لکھوایا ہوا تھا۔ بس پھر کیا تھا ہر امیدوار کو کھلی چھٹی دے دی گئی کہ اگر اس کا مخالف امیدوار "عوام دوست" ہے تو اس کا اشتہار لے کر ہائی کورٹ میں مسٹر جسٹس عامر رضا خاں کی عدالت میں چلا جائے پیپلز پارٹی کے مخالفین ایک ایک دن میں سینکڑوں اشتہارات جج صاحب کے سامنے پیش کرتے اور جسٹس عامر رضا خاں ایک دن میں ان سینکڑوں امیدواروں کو نااہل قرار دے دیتے۔ لگ بھگ ایک ہزار کے قریب پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ایک ہی جھٹکے سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ پھر 2013ءکے انتخابات میں نگران وزیر اعظم کے طور پر (ن) لیگ نے جب انکا نام بھی پیش کیا تو پیپلز پارٹی کو "عوام دوست" والے فیصلے یاد آگئے اور یوں انکے نام پر اتفاق نہ ہو سکا۔ اب (ن) لیگ نے انہیں قومی سلامتی کےخلاف چھپنے والی ایک انتہائی حساس خبر کی تحقیقات کیلے "سات رکنی کمیٹی" کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ ان کی تو آخری عمر میں لاٹری نکل آئی اب وہ کمیٹی کے سربراہ ہوں گے۔ایک حقیت بڑی دلچسپ ہے۔ جو قارئین کے علم میں لانا چاہتا ہوں۔ پاکستان کی عدلیہ کے سب سے بڑے "ولن" جہنوں نے "نظریہ ضرورت" متعارف کروا کر آج تک پاکستان کی سیاست و عدالت کو سولی پر چڑھائے رکھا ہے یعنی جسٹس منیر بھی اس مخصوص برادری سے تعلق رکھتے تھے اور جس گورنر جنرل غلام محمد نے اسمبلی توڑی تھی وہ بھی اسی برادری کا تھا جس سے جسٹس عامر رضا خاں کا تعلق ہے۔ ذوالفقار علی بھٹوکی سزائے موت کی توثیق کرنےوالے شیخ انوار الحق بھی اسی برادری سے تھے۔ سپریم کورٹ کا وہ بینچ جس نے کوئٹہ میں اپنے ہی چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کےخلاف فیصلہ دے کر انہیں گھر بھیجا اسکے ایک ممبر جسٹس خلیل الرحمان بھی اسی برادری کے سپوت ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو آئینی تخفظ فراہم کرنے اور انہیں آئین میں ترمیم کے اختیارات دینے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ارشاد حسن خاں بھی خیر سے اسی برادری کے چشم و چراغ تھے۔ جسٹس افتخار چوہدری نے جب اپنے بیٹے کی شادی کی تو لاہور ڈیفنس کے در و دیوار نے ایسا "ہوشربا رقص" شائد اس سے قبل نہ دیکھا ہو جیسا ان کی چاہنے والی ایک شخصیت نے کیا اور اسکا صلہ خوب پایا (بوجھو تو جانیں)۔ اس نیکو کار شخصیت کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے وہ وزیر قانون جن کے مشورے پر ملک میں ایمرجنسی لگائی گئی۔ وہ بھی اسی برادری کا ایسا بقراط ہے کہ مشرف کے بعد نواز شریف کا بھی قانونی مشیر ہے میں برادری سسٹم پر تو یقین نہیں رکھتا مگر کیا کروں پنجاب میں رہتا ہوں۔ ہر برادری کی روایات کو سمجھتا ہوں کہ کون سی باغی ہے اور کون سی وفادار۔ بالآخر حکومت نے اگر ملکی سلامتی کےخلاف تحقیقات کیلئے سات رکنی کمیٹی کا سربراہ ڈھونڈ ہی لیا ہے تو جسٹس منیر، جسٹس شیخ انوار الحق، جسٹس خلیل الرحمان، جسٹس ارشادکا یاد آنا فطری امر ہے۔ اور ہاں چلتے چلتے آپ کو گوجرانوالہ کی ایک درد مند شخصیت سعید بھٹی کے بارے میں کچھ بتاتا چلوں۔ مرحوم کا جماعت اسلامی سے غالباً رکنیت والا کوئی تعلق نہ تھا۔ تاہم وہ اسلامی جمعیتہ طلباءکے نادار و مستحق طلباءکی بڑی مدد کرتے۔ ایسے ہی غریب مگر ذہین طلباءمیں طاہر شہباز بھی شامل ہیں۔ یہی طاہر شہباز اب سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ تو ہیں ہی اب سات رکنی کمیٹی کے بھی سیکرٹری ہیں جس نے قومی سلامتی کےخلاف دی جانےوالی خبر کے غداروں کا پتہ چلانا ہو گا یا پھر اسے کسی پرانی قبر میں دفن کرنا ہوگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024