پی سی بی گورننگ بورڈ اجلاس: فیصلے صرف اپنے لئے
چودھری محمد اشرف
پاکستان کرکٹ ٹیم ان دنوں نیوزی لینڈ کے دورہ پر ہے جہاں وہ میزبان ٹیم کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں حصہ لے رہی ہے۔ قومی ٹیم کے لیے یہ ٹیسٹ سیریز بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ امارات میں اس نے ویسٹ انڈیز کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز دو ایک سے اپنے نام کی تھی، سیریز کے آخری ٹیسٹ میں قومی ٹیم کو ہونے والی شکست کی بنا پر ٹیم کی رینکنگ کے پوائنٹس میں دو پوائنٹس کمی واقع ہو گئی تھی جس کی بنا پر پاکستان ٹیم کی دوسری پوزیشن کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کامیابی کے بعد دوسری پوزیشن پر برقرار رہنے کے امکانات موجود رہیں گے۔ پوری پاکستانی قوم کی نظریں قومی ٹیم کی کارکردگی پر لگی ہوئی ہیں امید ہے کہ کھلاڑی توقعات پر پورا اتریں گے۔ دوسری جانب پی سی بی گورننگ بورڈ کا اہم اجلاس رواں ہفتے کے شروع میں نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں ہوا جس کی صدارت چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے کی۔ اجلاس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے جن میں زیادہ فیصلوں کا تعلق بورڈ کے عہدیداران کی ذات سے تھا۔ پاکستان سپر لیگ کے منصوبے کا آغاز سابق چیئرمین پی سی بی چودھری ذکاء اشرف نے کیا تھا ان کے دور میں پاکستان سپر لیگ کا منصوبہ حقیقت کے قریب تر پہنچ گیا تھا تاہم ملک میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی بورڈ میں ہونے والی تبدیلی کے باعث یہ منصوبہ التوا کا شکار ہو گیا بعد ازاں سابق چیئرمین اور موجودہ چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پی سی بی نجم سیٹھی کی کوششوں سے یہ منصوبہ اپنے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ جس کا پہلا ایڈیشن امارات میں مکمل ہو چکا ہے جبکہ دوسرے ایڈیشن کی بھی تیاریاں مکمل ہیں امید ہے یہ ایونٹ اب آہستہ آہستہ پاکستان میں واپس آ جائے گا کیونکہ دوسرے ایڈیشن کا فائنل لاہور میں کرائے جانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پی سی بی گورننگ بورڈ اجلاس میں ہونے والے اہم فیصلوں میں پاکستان سپر لیگ کو کمپنی بنانے کی منظوری دی گئی ہے۔ یہ کمپنی پاکستان کرکٹ بورڈ کے ماتحت ضرور ہوگی لیکن اس کا ہیڈکوارٹر اور بورڈ آف ڈائریکٹر الگ ہونگے۔ بعض ڈائریکٹر ایسے بھی ہونگے جو پی سی بی کے ساتھ ساتھ پی ایس ایل کا بھی حصہ رہیں گے۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان جو شروع سے اس بات کے حامی رہے ہیں کہ بورڈ کا کوئی عہدیدار ایک وقت میں دو عہدوں پر کام نہیں کر سکے گا اس کے باوجود بعض عہدے دار اس مرتبہ بھی دو عہدوں پر کام کرینگے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا چیئرمین پی سی بی ان افراد سے جان چھڑا سکیں گے یا نہیں۔ ایسا دیکھائی نہیں دیتا کیونکہ چیئرمین پی سی بی نے اجلاس میں اپنے حق میں بھی فیصلہ کرانا تھا۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان جو خود ایک نواب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن انہوں نے اپنا علاج پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیسے سے کرایا۔ چیئرمین پی سی بی کا عہدہ بے شک اعزازی ہے تاہم کرکٹ حلقوں کا خیال ہے کہ چیئرمین کو روایت قائم کرنی چاہیے تھی کہ اپنے علاج کا خرچہ خود برداشت کرتے بہر کیف چیئرمین کی آڑ میں اب اور بھی بہت سارے کام پی سی بی سے کرائے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے گورننگ بورڈ ارکان جو مختلف محکموں میں اعلٰی عہدوں پر موجود ہیں اور بھاری تنخواہ بھی لیتے ہیں لیکن انہوں نے غیر ملکی یاترا پی سی بی کے پیسوں سے کرنی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی سی بی گورننگ بورڈ کے اجلاس میں ان ممبران کو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا باری باری بھجوانے کی منظوری حاصل کی گئی ہے تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گورننگ بورڈ کے ارکان جو بغیر کسی معاوضہ کے پی سی بی کے لیے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں ان کے لیے بیرون ملک ایک انٹرنیشنل میچ دیکھنے کے اہل ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ ارکان امارات میں ہونے والی سیریز کے دوران اس سہولت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے۔ اس کے لیے انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کے دوروں پر جانے کی کیوں منظوری دی جاتی ہے۔ جہاں تک پاکستان سپر لیگ کا تعلق ہے تو اسے پانچ سال تک پاکستان کرکٹ بورڈ سے الگ نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن بعض لوگ اپنے فائدہ کی خاطر اسے الگ کمپنی بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان سپر لیگ کے پانچ میں سے تین ڈائریکٹرزکا تعلق پی سی بی اوردوکا نجی سیکٹر سے ہوگا، بورڈ کی طرف سے نجم سیٹھی، منصور خان اور شکیل شیخ جبکہ نجی سیکٹر سے عارف حبیب اور ضیا رضوی شامل ہونگے، پی سی بی کے چیف آپریٹنگ آفیسر اور فنانشل آفیسر نان ووٹنگ ارکان کے طور پر موجود ہوں گے۔ چیئرمین پی ایس ایل کی جانب سے بتائے جانے والے تمام حقائق ایک اچھا خواب دکھائی دیتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ ایسے اقدامات کریں جس سے ملک میں حکومت کی بھی اگر تبدیلی ہو جاتی ہے تو بورڈ اور پی ایس ایل کا یہ نظام چلتا رہے۔ ہمیں آئی پی ایل کی نہیں بلکہ اپنی خامیوں کو درست کرنا ہے وہ اسی صورت میں ہو سکے گا جب تمام فیصلے میرٹ پر کیے جائیں گے۔ گورننگ بورڈ اجلاس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ایم یوسف جنہوں نے ایک وقت میں آئی پی ایل اور آئی سی ایل کو جوائن کر کے دونوں طرف سے پیسے وصول کیے تھے ان کے کیس پر خرچ ہونے والے 17 لاکھ روپے کا ٹیکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو لگ گیا ہے کیونکہ اجلاس میں ان پیسوں کو معاف کر دیا گیا ہے۔ جس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ایم یوسف نے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں بطور بیٹنگ کوچ کی خدمات انجام دینے سے پہلے اپنے ذمہ بقایا جات کو معاف کرنے کی شرط عائد کر رکھی تھی۔ امید ہے کہ اب انہیں جلد نئی ذمہ داریاں مل جائیں گے جس کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کے شعبہ میں مضبوطی لانے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے ملک میں ڈومیسٹک کرکٹ کے ڈھانچے میں کوئی مزید تبدیلی نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے تاہم انہیں کسی نے یہ نہیں بتایا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کھلاڑیوں کے معاوضوں میں جب تک اضافہ نہیں کیا جائے گا نیا ٹیلنٹ آپ کو وہاں سے نہیں مل سکے گا۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں معمولی پیسوں کی وجہ سے بھی نئے کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی بجائے براہ راست قومی ٹیم تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں۔ ویسے پاکستان سپر لیگ کی پانچوں فرنچائرز کمپنیوں نے ملک سے نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے لیے جو اقدامات شروع کیے ہیں وہ خوش آئند ہے۔ یہ کام پی سی بی کو کرنا چاہیے تھا جو اب پرائیویٹ ادارے کر رہے ہیں۔