قابل غور پہلو
پاکستان میں قومی سطح پر جمہوری طرز حکومت اور جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنے کی بہت سے افراد کی خواہش ہے ۔وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حکو مت اپنی آئینی مدت پوری کرے اور وقت پر انتخابات ہونا ہی ملک اور جمہوریت کی خدمت ہے۔ ماضی میں ہونے والا حکومت کی بساط فوری یا جلد بازی میں لپیٹنے کا ایک تلخ تجربہ کسی کو بھولنا نہیں چاہیے۔ سابق صدر ایوب کے دور حکومت کے آخری دنوں میں اتنا زیادہ مخالف اور منفی پراپیگنڈا ہوا۔یہاں پریہ بات زیر بحث نہیں کہ وہ حکومت آئینی تھی یا نہیں۔ اچھی تھی یا بری ۔لیکن اس پراپیگنڈا کی بدولت حالات کو اس نہج پر پہنچادیا گیا۔کہ حکومتی نظام اور ملک میں ایک خلا پیدا ہوگیا۔صدرا یوب کی حکومت بغیر مستقبل کی کسی منصوبہ بندی کے اچانک ختم ہوگئی۔ جس کا ناقابل تلافی نقصان یہ ہوا کہ خلا پیدا ہونے کی صورت میںملک دوٹکڑے ہوگیا۔ کوئی بھی بچانہ سکا اور ہر طرح کی معاشی اور سماجی ترقی کا پہیہ رک گیا۔ جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ چایئے تو یہ تھا کہ اس نقصان دہ خلا کوپیدا ہونے سے روکنے کے لئے کچھ عرصہ انتظار کرلیا جاتا۔ ملکی انتخابات جانے والی حکومت کی ذمہ داری میں ہوتی ہے۔ اور کوئی ایسا طریقہ اپنا یا جا تا کہ انتقال اقتدار پر امن طورپرہو جاتا اور نقصان کا باعث نہ ہوتا۔ خلا پیدا نہ ہوتا اور ملک کو دوٹکڑے ہونے سے بچایا جاسکتا ۔ ملکی، معاشی اور سماجی ترقی کے تسلسل کا کوئی طریقہ کاروضع کیا جاتا ۔لیکن جلد بازی کی سیاست کی وجہ سے رہنماﺅں کی آنکھوں پر پٹی بند ھ گئی۔ ہر سیاست دان کو تاہ نظری کا شکار ہو گیا اور کسی بھی صورت میں اقتدار حاصل کرنے کی تگ دو میں خود غرضی کا شکار ہوگیا۔
کچھ اسی طرح کے حالات اب بھی پیدا کئے جارہے ہیں۔ ماضی کی طرز کا پر اپیگنڈا آج بھی شروع کردیا گیاہے۔ چاہئے۔ تو یہ ہے کہ جمہوری عمل کو مکمل ہونے دیا جائے۔ اور جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھا جائے۔ موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔ تاکہ خلا پیدا نہ ہو۔ ماضی کی طرح سے دشمن ملک کو اپنا کھیل کھیلنے نہیں دیا جانا چاہیے۔ جو بھی تھوڑی بہت ترقی ہورہی ہے اس ترقی کا فائدہ اٹھا نا چاہیے ۔حکومت کی کردار کشی بغیر ثبوت کے نہیں ہونا چاہئے۔ شوشل میڈیا اور الیکڑنک میڈیا کو مثبت کرادا کرنا چاہے تاکہ نقصان دہ سیاسی خلا پیدانہ ہو پائے۔ اور نہ ہی کوئی بحران پیدا ہو۔ قومی سطح کے ترقیاتی منصوبوںبشمول نیلم جہلم پراجکٹ اور CPECکو درمیان میں معلق نہیں ہونے دینا چاہیے۔ کسی کی بھی کردارکشی نہ کی جائے بلکہ آنے والے الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیاں اپنی مثبت سوچ کی بدولت اپنے اندر مضبوطی پیدا کریں۔اپنی صلاحیت کا بھر پورا اظہار کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں گھر کریں۔ الیکشن کے بروقت انعقاد تک مثبت رویہ رکھا جائے۔ اگر مخالفین نے ایسے نہ سوچا تو ہمیں ایک بار پھر سنگین بحران کی طرف بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ دشمن ملک پھر سے مخالف رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ضروری نہیں کہ سیاسی مخالفین ملکی مفاد کے خلاف ہوں ۔لیکن حالات کی سنگینی کا احساس اور ادراک کرنا ہوگا۔جلد بازی میں کوئی اٹھا یا ہوا قدم ایسا بحران بھی پید اکر سکتا ہے۔ جس کے اندوہناک نتائج ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں۔ اگر سیاسی لیڈران اگر ملک وقوم کے اتنے ہی غمخوار ہیں تو ملک کی خد مت حذب مخالف میں رہتے ہوئے بھی موثر انداز میں کی جاسکتی ہے۔ حزب مخالف کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسمبلیوںکے یہ ممبران بھی عوام کے چنے ہوئے ہیں۔ اور وہ بھی عوام کے نمائیندہ ہیں۔ان سے بھی عوام کی توقعات وابستہ ہیں۔عوام کا ان پر حق بھی ہے۔
اسمبلیوں کے فلور پر عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل پویس کی دست درازی ،یوٹلیئز بلیز کی اوربلنگ ،پڑول کی فروخت پر بے حساب ٹیکس، ناقابل برداشت مہنگائی ،عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی اور انصاف کی عدم فراہمی جیسے مسائل اسمبلی کے فلور پر بحث کے لئے پیش کئے جاسکتے ہیں۔ ان زیادتیوں اور حقوق کی پامالی کی روک تھام کے لئے برسراقتدار پارٹی کو فوری عمل کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔قومی سطح پر بڑے منصوبوں میں مالی بے ضا بتیگیوں اور شفافیت پر روزانہ کی بنیاد پر اسمبلی کے فلورپر بحث کرکے ان منصوبوں کو جلد مکمل اور غیر ملکی سودوں پر کمیشن کی شکایت کودور کیا جاسکتا ہے ۔ثبوت اکھٹے کرکے اسمبلیوں کے علاوہ عدالت میں بھی جا یا جاسکتا ہے۔سیاسی پارٹیوں کے اپنے تھنک ٹینک اور اطاعات کی بروقت فراہمی کے موثر ذرائع ہونا چاہیں ۔ جن کی بنیاد پر قومی سطح کے معاملات کی ۔ مخالفت یا حمائیت مدلل طریقے سے کی جاسکتی ہے۔جب دلائل زوردار ہونگے تو حکومت کوسیدھی راہ پر رکھنے کی اہم قومی خدمت ادا کی جاسکتی ہے اسمبلی میں ان ہی مدلل تقاریر پر عوامی پذپرائی اور مقبولیت حاصل کی جاسکتی ہے۔
اگر حزب اختلاف مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنا موثر کردار اسمبلیوں میں ادا کرنا شروع کردے تو ملک فوری ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ۔حکومت کے قومی سطح کے منصوبے بروقت مکمل ہوسکتے ہیں۔ پویس کے کاموں میں سیاسی مداخلت ختم ہوسکتی ہے۔ حکومت کے کاموں میںشفافیت کا پہلو بھی اجاگر ہوسکتا ہے۔ بہت سے جبری ٹیکس ختم ہوسکتے ہیں۔ تیز ترقی کا سفر شروع ہوسکتا ہے قومی ترقی کے مجموعی معیار کی پرکھ صرف قومی سطح کے منصوبوں کا مکمل ہونا ہی نہیںبلکہ حکومت کی کار گردگی کا معیار اس بات سے جانچا جانا چاہیے کہ اس کے دور اقتدار میں پرائیویٹ سیکٹر میں کتنے روزگار کے مواقع بڑ ھے ہیں ۔ اور کتنی تعداد میں نئی مستقل نوکریاں عوام کو میسر ہوئی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کی ترقی میں دراصل قومی سطح کے بڑے منصوبوں کے سود مند ہونے کا معیار ہونا چاہیے۔اور یہ ساری معلومات سیاسی جماعتوں کے تھنک ٹینک اکھٹی کرکے ہی عوام کی عدالت میں جاسکتے ہیں۔ اس سے عوامی شعور بیدار ہوگا۔ کرپشن ختم ہوگی۔ بنیادی حقوق کی پاسداری ہوگی۔ملک فوری طورپر ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے اب یہ سیاسی پارٹیوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی کارگردگی کے لئے اسمبلیوںکو چنتے ہیں یا سڑکوں کو۔ سڑکوں کو چنے سے عوام کو ایک بار پھر دھوکا دیا جاسکتا ہے ۔لیکن غربت کو ختم نہیں کیا جاسکتا ۔صرف عوام کا قیمتی وقت ضائع ہوسکتا ہے ۔